پختون قوم دنیا کی ایک ایسی عجیب قوم ہے کہ جب تک تاریخ اس قوم کے بارے میں خود کچھ نہیں کہتی، یہ قوم اپنے بارے میں یا اپنی تاریخ، تہذیب اور اپنے اسلاف کے بارے میں اکثر غافل اور خاموش ہی رہتی ہے۔ جس کا ایک ہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ اس قوم کا اجتماعی حافظہ الٹا کام کرتا ہے یعنی جو شخصیات اور تاریخی واقعات کو بار بار یاد کرنے انہیں اپنی نئی نسل کو منتقل کرنا چاہیے، ان سے سروکار ہی نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوم آج بھی اپنی تاریخ اپنے اسلاف اور اپنی پہچان سے نابلد ہے۔
قارئین، آج یعنی 25 فروری 2025ء کو پختون قوم کے نابغہ روزگار شخصیت خوشحال خان خٹک کی 336 ویں برسی ہے جو مغل بادشاہ شاہ جہان کے دور میں 1613ء کو پیدا ہوئے اور 25 فروری 1689ء میں اس دار فانی اور اپنی قوم سے انتہائی شاکی رحلت کرگئے۔ اس عظیم شخصیت کو دنیا صاحب سیف و قلم کے نام سے جانتی ہے۔ ہاں آج خوشحال خان خٹک کی وفات کی تاریخ ہے۔ وہ خوشحال خان جسے حقیقی معنوں میں کثیرالجہت اور بے مثال شخصیت کہا جاتا ہے۔ جو بہ یک وقت شاعر، ادیب، مورخ، طبیب، شکاری، جنگجو، سردار، سیاح، فلسفی، ماہر نفسیات، مذہبی عالم اور سیاست دان رہا۔ میں اکثر دوستوں کی نجی محفلوں اور ادبی تقریبات میں یہ بات یا دعویٰ بڑے شد و مد سے کرتا پھرتا ہوں کہ دنیا کے تمام اقوام کی تاریخ میں کسی بھی دوسری قوم کے پاس خوشحال خان خٹک جیسی کثیر الجہت، کثیر الصفات اور کثیر التصانیف شخصیت نہیں ہے جس کی ذات میں بہ یک وقت اتنی زیادہ اور بے شمار صفات موجود ہو۔ انسانی زندگی اور کائنات کا وہ کون سا موضوع ہے جس پر خوشحال خان خٹک نے قلم نہ اٹھایا ہو اور وہ بھی ایک ایسے علمی، سائنسی اور خوب صورت انداز میں کہ:
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
 اور یہ بات یا دعویٰ میں کسی "تہذیبی نرگسیت” یا کسی مبالغہ کی بنیاد پر نہ کہتا ہوں اور نہ کرتا ہوں بلکہ میرے پاس اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ڈھیر سارے دلائل اور تاریخی ثبوت بھی موجود ہیں۔ اس موضوع پر کسی سے بھی بحث اور مکالمہ کے لیے ہر فورم پر ہمہ وقت تیار ہوں۔
بہر حال آج کے کالم میں صرف ہنر و کمال یعنی فنی تعلیم کے بارے میں خوشحال خان خٹک کی تعلیمات انہی کے چند اشعار کی روشنی میں پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔
قارئین، ہم سب جانتے ہیں کہ آج دنیا کی ترقی کا پیمانہ اور اشاریہ یکسر بدل چکا ہے۔ آج یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی قوم تعداد میں یعنی مردم شماری کے لحاظ سے کتنی زیادہ ہے یا اس کے پاس کتنا جدید اسلحہ ہے…؟ کتنی زیادہ زمین اور علاقہ ہے یا جسمانی لحاظ سے کتنی مضبوط اور توانا ہے…؟ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس قوم کے پاس کتنی جدید ٹیکنالوجی ہے یا وہ جدید سائنس اور جدید علوم سے کتنی بہرور ہے اور دنیا کی ترقی اور تہذیب میں کتنا اور کس قدر اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے…؟ اس بات کا شعور اور درس آج سے 336 سال قبل خوشحال خان خٹک نے اپنی قوم کو دیا ہے کہ:
جہانونہ سہ لگ نہ دی تہ ئی نہ وینی نادانہ
گورہ سو دی ہسی زمکے گورہ سو ہسی آسمانہ
(آپ کی نظروں سے اوجھل ہیں، ورنہ کتنے زیادہ جہان ہیں۔ جتنی زمینیں ہیں اتنے ہی آسمان ہیں)
کہ پہ ملک چرے پیدا شی ہنرور
د ھغہ پہ کمی سر شی بے ہنر
کہ تخت دپاسہ کینی بادشاہی کا
اخر بیا د بے ہنر خاورے پہ سر
(اگر ملک میں کوئی ہنرمند پیدا ہوجائے، تو اس کے خلاف بے ہنر بولتا رہتا ہے۔ اگر تخت پر ہنر پسند بادشاہ بیٹھا ہو، تو آخر کار بے ہنر کے سرنیچا ہوجاتا ہے)
اسی طرح ایک اور شعر میں فرماتے ہیں کہ:
ہنرور ئی نیک سیرت بلند اختر ئی
کہ بل تاوتہ تر خپلہ زانہ خہ دے
 آپ ہنر مند، نیک سیرت اور بلند اقبال ہو، چاہے آپ کو اپنے علاوہ کوئی اور اچھا لگتا ہو)
اسی مضمون کو اپنی ایک دوسری رباعی میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
چی باز دی لاڑ شی چرے لہ دستہ
پہ غرہ پہ سمہ کڑی ورسپے مرستہ
ہنر ہم ہسے یو یاغی باز دے
طلب ئی نہ کڑئ پہ ہمت پستہ؟
(جب باز آپ کے دست و بازو سے اڑ جائے، تو اس کی تلاش میں اونچے پہاڑ اور ہم وار زمین پر پھرتے رہتے ہو۔ ہنر و کمال بھی ایک باغی باز (شاہین) ہے۔ اس کے طلب اور اپنانے مَیں کیوں کم ہمتی اور سستی سے کام لے لو..؟)
یہ اشعار بھی ملاحظہ کریں:
چاوے لار د ختو نشتہ دے آسمان تہ
ما ویل لار بہ زہ پیدا کڑم پہ ہنر
(کسی نے کہا کہ آسمان تک پہنچنے کے لیے راستہ نہیں ہے۔ مَیں نے کہا وہ راستہ میں ہنر و کمال سے کام لے کر پیدا کرلوں گا)
کہ طالع او ہنر دواڑہ سرہ کیگدی
زہ خوشحال بہ پکے اونیسم ہنر
(اگر میرے سامنے کوئی طاقت (قسمت) اور ہنر رکھ دے، تو مَیں(خوشحال خان) ہنر ہی کو اپنا لوں گا)
ہنر مند سڑے پہ ہر دیار عزیز وی
پہ ہر زائے قدر قیمت لری سرہ زر
(ہنر مند انسان ہر ملک میں عزیز ہوتا ہے کہ سونا ہر جگہ قیمتی ہی رہتا ہے)
قارئین، آج کی بدلتی ہوئی عالمی اور ملکی صورت حال کی عکاسی خوشحال خان خٹک کی اس رباعی بھی کتنے خوب صورت پیرائے میں کی گئی ہے کہ:
پہ فتنو ڈکہ تورہ آسمانہ
لا بہ دے کلہ شی دا خونہ ورانہ
چی بل یو نوے جہان پیدا شی
گوندے سوک بیا مومی خلاصے لتانہ
(اے فتنو سے سیاہ گردش آسماں کب آپ کا گھر برباد ہوگا، تاکہ ایک نیا جہان پیدا ہوجائے اور آپ سے لوگ چھٹکارا پاسکے)
__________________________

ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

شیئرکریں: