ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ چیف جسٹس کا انتخاب حکومت اور اپوزیشن کے منتخب ارکان پر مشتمل ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی کو ملک کا نیا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا ہے۔ ان کی تقرری پر حکومتی حلقے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں جب کہ ناقدین اس کو غلط طریقے سے کیا گیا ایک اچھا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔
خیبر پختون خواہ کے آفریدی قبیلے سے تعلق رکھنے والے 59 سالہ یحییٰ آفریدی ملک کے تیسویں چیف جسٹس ہوں گے۔ وہ چیف جسٹس کے طور پر نام زدگی کے وقت سپریم کورٹ میں سینیارٹی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر تھے۔ وہ چیف جسٹس قاضی فائز کے ساتھ اُن چار ججوں میں شامل تھے، جنھوں نے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو الاٹ کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔
ان کی تقرری اس لحاظ سے بھی قابل ذکر ہے کہ یہ حکومت کی جانب سے اس ہفتے کے آغاز پر منظور کی گئی 26 ویں آئینی ترمیم کے صرف دو دن بعد عمل میں لائی گئی ہے۔
☆ جسٹس یحییٰ آفریدی کے کیرئیر پر اِک نظر
یحییٰ آفریدی خیبر پختون خوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لاہور کے ایچیسن کالج سے حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور پھر پنجاب یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا جب کہ قانون کی تعلیم برطانیہ کی کیمبرج یونی ورسٹی سے حاصل کی ہے۔
جسٹس آفریدی نے 1990ء میں ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پشاور میں پریکٹس شروع کی جب کہ 2004ء میں سپریم کورٹ میں وکالت کا آغاز کیا۔ بھر پور انتظامی تجربہ رکھنے والے جسٹس آفریدی خیبر پختون خوا کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر بھی کام کرتے رہے۔
2010ء میں پشاور ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج تعینات ہونے سے پہلے وہ “آفریدی، شاہ اور من اللہ” لا فرم کا حصہ تھے۔ یہ وہی لا فرم ہے جس کے دیگر دو شراکت دار وکلا منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ بھی جسٹس آفریدی کی طرح سپریم کورٹ کے جج ہیں۔
2012ء میں جسٹس آفریدی کو پشاور ہائی کورٹ کا مستقل جج تعینات کیا گیا اور پھر چار سال بعد وہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے۔ چھ برس کا عرصہ گزارنے کے بعد 2018ء میں انہیں ترقی دے کر سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔
☆ پارلیمانی کمیٹی کی پہلی تعیناتی
ملکی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ چیف جسٹس کا انتخاب حکومت اور اپوزیشن کے منتخب ارکان پر مشتمل ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ کیا ہے۔ یہ فیصلہ منگل کی رات کو ہونے والے اس ان کیمرہ اجلاس میں کیا گیا، جس کے شرکا کو اجلاس کی کارروائی سے متعلق معلومات باہر شئیر نہ کرنے کا کہا گیا تھا۔
اس کمیٹی کے اجلاس کا پاکستان تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا تھا ان کے بقول عوامی مینڈیٹ نہ رکھنے والی نامکمل پارلیمنٹ ایسی کمیٹی بنانے کی قانون سازی کی مجاز نہیں تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قانون سازی کے لیے پی ٹی آئی نے مشاورت میں بھر پور حصہ لیا تھا اور چیف جسٹس کے انتخاب کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کو اپنے ممبران کے نام بھی دئیے تھے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کو دو سینئر ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر سبقت دے کر ماضی میں رائج سینارٹی کے اصول کے بر خلاف چیف جسٹس بنایا گیا ہے۔ ان کے خلاف آنے والا واحد ووٹ جمیعت علماء اسلام (فضل الرحمان) کا تھا۔ جے یو آئی کے نمائندے کامران مرتضی نے جسٹس منصور علی شاہ کے حق میں ووٹ دیا۔ جب کہ پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر، بیرسٹر علی ظفر اور سنی اتحاد کونسل کے صاحب زادہ حامد رضا اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
شیئرکریں: