فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان نے یہ تقریر 24 دسمبر 1972ء کو جناح پارک میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ مذکورہ جلسہ عام کی صدارت قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سردار شوکت حیات نے کی تھی۔ اِس جلسہ میں مولانا مفتی محمودؒ بھی موجود تھے۔
باچاخان نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے صدرِ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کی ترقی، خوش حالی اور قوم کی فلاح و بہبود کےلیے ہر قسم کے تعاون کی پیش کش کی اور کہا کہ “اگر بھٹو صاحب اِس ملک کو واقعتاً آباد کرنا چاہتے ہیں، تو کوئی اور اُن کا ساتھ دے یا نہ دے، میں اُن کا ساتھ ضرور دوں گا۔ بلکہ ملک کی ترقی اور خوش حالی کے کام میں اُن سے بھی دو قدم آگے رہوں گا۔”
خان عبدالغفارخان نے کہا کہ وہ صلح، اَمن، اتحاد، محبت اور اخلاص و بھائی چارے کے علم بردار ہیں، اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان، بھارت، افغانستان اور ایران جیسے ممالک ایک دوسرے سے قریب تر ہوجائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ “تشدد نفرت کو جنم دیتا ہے جب کہ عدمِ تشدد بھائی چارہ پیدا کرتا ہے۔ تشدد کا اسلحہ بندوق اور عدمِ تشدد کا اسلحہ محبت ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم تشدد کی راہ کو کسی قیمت پر نہ اپنائیں اور محبت و اخلاص کے ذریعے ایک متحد و مضبوط قوم بننے کی جد و جہد شروع کریں، اگر ہم واقعی ملک کی آبادی اور ترقی چاہتے ہیں، تو پھر ہمیں اجتماعی زندگی گزارنے کےلیے اسلام کے زریں اُصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔ اسلام نے اجتماعی زندگی کا درس دیا ہے اور اس زندگی میں ہمیں پورے معاشرے اور قوم کے حقوق کا خیال رکھنے کا احساس دلایا ہے۔ انفرادی زندگی جو ذاتی مفاد کا دوسرا نام ہے، جانور کی زندگی ہوتی ہے۔ ہمیں اشرف المخلوقات کی حیثیت سے اجتماعی زندگی بسر کرنے کے اُصول پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔”
بیش بہا قربانیوں کے بعد یہ ملک آزاد ہوا اور اب نوجوانوں کا فرض ہے کہ اب وہ اِسے ترقی و خوش حالی سے ہم کنار کریں۔ اگر ہم ملک و قوم کو ترقی سے ہمکنار کریں گے تو اس میں سب کا ہی بھلا ہے۔ پختون نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ عیش و آرام کو خیرباد کہیں، ایک نئے جذبے، جوش اور ولولے سے میدان میں آئیں، قوم پرستی کے تقاضے پورے کریں اور تعمیری جذبے کے ساتھ تعمیرِ قوم اور تعمیرِ وطن کریں۔ میں ایک بار پھر اپنی قوم کو اس لیے آگیا ہوں کہ مجھ سے کہا گیا تھا کہ قوم کو میری خدمات کی ضرورت ہے۔ میں خدمت کےلیے حاضر ہوں لیکن یہ خدمت میں اکیلے نہیں کرسکتا، آپ سب کو کمرِ ہمت باندھنی ہوگی۔ اگر آپ ہمت و قربانی کے جذبے کے تحت ساتھ دینے کےلیے تیار ہیں تو پھر آئیے کہ ہم کارخیر کی ابتدا کریں۔ لیکن اگر آپ خود غرضی، مفاد پرستی اور ذاتی لالچ کو خیرباد کہنے کےلیے تیار نہیں، تو پھر میرا یہاں رہنا بے کار ہوگا اور میں واپس چلا جاؤں گا۔ ہم پر طرح طرح کی بہتان تراشیاں ہوتی رہی ہیں، کبھی ہمیں ہندوؤں کا آلہ کار اور کبھی پاکستان کا مخالف قرار دیا جاتا رہا ہے جب کہ اصلی حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خدائی خدمت گار کی حیثیت سے اصلاح قوم کی جو تحریک شروع کی تھی، اُسے انگریز وں نے سیاسی تحریک قرار دے کر ہم پر مظالم کیے اور ہمیں قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار کیا۔
اُس وقت ہم نے مسلم لیگ کی طرف دستِ تعاون دراز کیا لیکن مسلم لیگ نے تعاون سے انکار کیا اور خود کو انگریزوں کی دوست جماعت قرار دیا۔ ایسے حالات میں کانگریس آگے بڑھی اور اِس نے اس بنیاد پر کہ ہمارا مشترکہ دشمن انگریز ہے ہم سے بھر پور تعاون کیا اور ہم نے مل کر انگریزوں کو ملک سے نکال دیا۔
ہندوؤں سے ہمارا تعلق صرف کانگریس کی حد تک تھا اور ہم میں دشمنی، قوم پرستی اور آزادی وطن کےلیے یکساں جذبہ جیسی قدریں مشترک تھیں، جہاں تک پاکستان کی مخالفت کا تعلق ہے، ہم پاکستان کے نہیں بلکہ اُن لوگوں کے مخالف تھے جو پاکستان اور اسلام کے نام پر مسلمانوں کو فریب دے رہے تھے۔ یہ لوگ نفرت کے بیج بو رہے تھے اور قوم کو اپنے مفاد اور اغراض کی خاطر تباہی کی طرف لے جارہے تھے۔ بعد میں میری یہ بات درست ثابت ہوئی، اُن لوگوں نے اپنے اعمال سے ظاہر کردیا کہ اُنہیں ملک قوم اور مذہب سے کوئی محبت نہیں حتیٰ کہ جب اُنہیں اپنا عیش و آرام اور اقتدار خطرے میں نظر آیا، تو اُنہوں نے ایسے حالات پیدا کیے کہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔
اُنہوں نے ذاتی اغراض کےلیے تشدد کی راہ اپنائی جس نے نفرت کو جنم دیا۔ میں نے اس وقت بھی حکومت کو خبردار کیا کہ وہ بنگال میں گولی نہ چلائیں، مجیب پاکستان سے علاحدگی نہیں چاہتا، مجھے پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں کا ایک جرگہ لے جانے دو، حالات ٹھیک ہوجائیں گے اور پاکستان ایک رہے گا، لیکن میری بات نہیں مانی گئی۔
پاکستان کے قیام کے فوراً بعد لارڈ کنگھم کے ذریعے اور پھر ملک غلام محمد اور دوسرے متعدد اصحاب نے مجھے اقتدار کی پیش کش کی جو میں نے قبول نہ کی، کیوں کہ مجھے کبھی بھی حکومت کرنے سے دل چسپی نہیں رہی ہے۔ اگر ہم کرسیاں قبول کرلیتے تو ہمیں نہ جیل جانا پڑتا اور نہ غدار قرار دیے جاتے لیکن ہم نے قوم کی خاطر ایسی راہ چنی جو مصائب اور قربانیوں سے پر ہے مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ قوم ابھی تک اس بات کونہیں سمجھ سکی کہ اُن کا بہی خواہ کون ہے، اور دشمن کون ہے…؟
آپ جنت نظیر ملک میں رہتے ہیں، بہترین قوم کے فرزند ہیں لیکن پھر بھی دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی اور آپ کو روٹی کی خاطر ٹوکریں کھانی پڑتی ہیں، آخر کیوں … اس کی وجہ کیا ہے…؟
وجہ یہ ہے کہ ہم میں ابھی تک اچھے اور بُرے لوگوں اور اچھی اور خراب پارٹیوں میں تمیز کرنے کا شعور پیدا نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ خدمت کرنے والوں کو بُری نگاہ سے اور لٹیروں کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جہاں خدمت کو جرم سمجھا جائے وہاں خدمت کرنے والے پیدا نہیں ہوتے اور پھر ایسی قوم و ملک تباہ ہوجاتے ہیں۔ پختون قوم کی شایان شان نہیں ہے کہ وہ ڈنڈے کے سامنے ناچنے لگیں اور خدمت کرنے والوں کو گالیاں دیں۔ میں 63 سال سے پختونوں کی خدمت میں مصروف ہوں لیکن ابھی تک پختونوں کو یہ تک پتا نہیں چل سکا کہ باچا خان ہندو ہے یا مسلمان…؟
اس قوم کا سب سے بڑا مرض زر اور زن ہے اور میں اس مرض کا علاج کرنا چاہتا ہوں۔ جب تک آپ پیسے اور زمین کی محبت نہیں چھوڑیں گے، آپ کبھی متحد نہیں ہوں گے اور جب تک آپ متحد نہیں ہوں گے، آپ ترقی نہیں کرسکیں گے۔ آؤ کہ ہم مشکل اور کٹھن سفر کا آغاز کریں اور اس قوم کو دُکھ، مصیبت، پسماندگی اور افلاس سے نکال کر ایک عظیم قوم بنادیں۔”
قارئین، آپ نے اپنی قوم کے سب سے بڑے ہم درد، مجاہد، عظیم راہ نما اور لیڈر کی تقریر پڑھ لی ہے۔ اب آپ خود غور کریں کہ اگر ماضی میں اِن کی بات مانی جاتی، اِن کی آواز پر کان دھرے جاتے اور اُنہیں طرح طرح کی اذیتوں اور مصائب سے دوچار کرنے کی بجائے اُن کی خدمات سے استفادہ کیا جاتا، تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ آج مملکتِ خداداد اور یہ قوم کہاں کھڑی ہوتی…؟
بقولِ شاعر!
وہ لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
ڈھونڈا تھا جن کو آسماں نے خاک چھان کے
اب ذرا موجودہ منظر نامے پر بھی غور کریں، کیا ایسا نہیں ہے کہ وہی مخصوص ٹولہ، جس نے بقولِ باچا خان “اپنے مفادات کےلیے ملک کا دولخت ہونا بھی گوارا کر لیا۔” آج بھی اپنے مفادات کی خاطر ہر حد تک جانے کےلیے تیار ہیں۔
دوسری جانب اگر موازنہ کرکے دیکھا جائے، تو قوم خصوصاً پختونوں کی حالت بھی وہی ہے، آج بھی یہ اپنے بہی خواہوں کو پہچانتی ہے اور نہ ہی اچھے بُرے لوگوں کی تمیز کر سکتی ہے۔ بلکہ آج بھی یہی قوم سب سے زیادہ ناچ رہی ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ آج ڈنڈا نہیں بلکہ ایک بلا ہے جس کے سامنے پختون خصوصاً پختون نوجوانوں کی اکثریت دنیا و مافیہا سے بے خبر ناچے چلی جا رہی ہے۔ جاتے جاتے بس یہی دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالا ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین۔
___________________________
راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 21 جولائی 2020ء بہ روزِ منگل کو روزنامہ آزادی سوات، اسلام آباد نے پہلی بار شرف قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔