قارئین، یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عصرِ حاضر میں مملکتِ خداداد کو کئی گو نا گو مسایل کا سامنا ہے، جن میں کم زور معاشی حالت، بے روزگاری، اقربا پروری اور سیاسی عدمِ استحکام جیسے مسایل قابلِ ذکر ہے۔ ان مسایل کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوانوں میں ملک چھوڑنے کا رجحان بامِ عروج پر ہے۔ لیکن بے بسی کا عالم یہ ہے کہ ان کے پاس ملک چھوڑنے کی بھی پیسے نہیں ہے۔ آج کل جس سے بھی بات کریں، تو وہ ملک چھوڑنے کا مشورہ ہی دے گا۔
قارئین، ہمارے زیادہ تر دوست یورپ کی چمک دمک دیکھ کر اس کو جنت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں، کیوں کہ وہاں پر انسانی حقوق سب سے بڑی نیکی تصور کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا یورپ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا…؟ نہیں، بلکل نہیں۔ کیوں کہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ یورپ میں مذہب کو بنیاد بنا کر تقریباً 178 تک سالوں جنگیں لڑی گئیں تھیں۔
جس کی وجہ سے 80 لاکھ کے قریب لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔ لیکن بالآخر (Treaty of Westphalia) کی وجہ سے ان جنگوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔
لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی اس کے بعد تقریباً پورے یورپ میں خانہ جنگی یعنی (Civil Wars) کی شروعات ہوئی جو بعد میں جمہوریت یعنی (Democracy) کے مستحکم ہونے تک زور و شور سے جاری تھی۔ اس کے بعد پورے یورپ میں سائنس اور فلسفے کی ایک نئی دور کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے آج یورپ زمینی جنت کی عکاسی کرتا ہے۔
قارئین، مذکورہ بالا تمہید کا مقصد محض یہ ہے کہ قدرت کا نظام ہے کہ دنیا میں ہر معاشرہ ارتقائی عمل سے گزرتا ہے جس کے بعد وہ ایک منزل تک پہنچتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی اسی راہ پر گام زن ہے اور ایک نہ ایک دن اپنی منزل کو ضرور پہنچے گا، انشاءاللہ
اس بات سے چنداں انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مملکتِ خداداد میں مسایل کافی زیادہ ہے۔ لیکن کیا ان مسایل کو جو کے تو چھوڑ کر کسی باہر ملک میں پر آسایش زندگی گزارنا ان کا حل ہے…؟ نہیں۔ ہاں جو لوگ باہر جانے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ بے شک چلے جائیں۔ کیوں کہ اچھی زندگی گزارنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ لیکن دوسروں کو نا اُمیدی کی طرف نہ دھکیلے۔ ان کی داد رسی کی جائے، ان کا حوصلہ بڑھائے، ان کو حالات اور واقعات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا سکھائیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم پر نا اہل حکم ران مسلط ہیں۔ لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ یہ بھی ہمارے وجہ سے ہیں۔ کیوں کہ ہم ہی میں اجتماعی سوچ اور شعور کی کمی ہے۔
قارئین، ایک وقت ایسا بھی تھا کہ یورپ میں بھی یہ مسایل تھے۔ لیکن وہاں کے لوگوں نے امید نہیں چھوڑی بلکہ ان حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ جس کی وجہ سے دورِ حاضر میں وہ معاشرے دنیا پر راج کرتے ہیں۔ لہٰذا بندہ ناچیز کا گذارش ہے کہ اگر آپ یورپ نہیں جا سکتے، تو اپنے لیے پاکستان کو یورپ بنائیں۔
_____________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔