خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کے بڑے بھائی، مدبر اور زیرک سیاست دان اور صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) کے دوسرے وزیرِ اعلا ڈاکٹر خان صاحب 1883ء کو خیبر پختون خوا کے ضلع چارسدہ کے گاؤں اتمان زئی کے خان بہرام خان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد ایڈورڈ میں داخلہ لیا جہاں سے ایف ایس سی کرنے کے بعد گرانٹ میڈیکل کالج ممبئی سے ایم بی بی ایس کیا۔ جب کہ سپیشلائزیشن “سینٹ تھامس میڈیکل کالج اینڈ ہاسپیٹل لندن” سے کیا۔
تعلیم سے فراغت کے بعد ہندوستانی فوج میں ملازمت اختیار کی اور پہلی جنگِ عظیم میں فرانس چلے گئے جہاں “میری” نامی خاتون سے رشتۂ ازدواج میں بندھ گئے۔ موصوف جب ملازمت سے سبک دوش ہوئے، تو میڈیکل پریکٹس شروع کی۔
قارئین، بعض تاریخی کتابوں اور رسالوں میں ان کا نام خان عبدالجبار خان لکھا گیا ہے لیکن گذشتہ روز فیس بک پر پاکستان سٹڈیز ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر فخر الاسلام صاحب کی ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں انہوں یہ دعوا کیا تھا کہ ڈاکٹر خان صاحب کا اصل نام “خان صاحب” (پشتو میں خان صیب) ہی ہے۔ اس بات کی تصدیق کے لیے جب راقم نے ڈاکٹر خادم حسین اور حیات روغانی سے رابطہ کیا، تو دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ کہ ڈائریکٹر صاحب کا دعوا بالکل درست ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں۔
ڈاکٹر خان صاحب نے 1930ء کو عملی سیاست میں قدم رکھا اور سات سال بعد صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) میں پہلی کانگرسی وزارت قائم کرتے ہوئے صوبے کے دوسرے وزیرِ اعلا منتخب ہوئے۔
1937ء کو جب کانگرس نے وزارتوں سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا، تو آپ بھی عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ بعد ازاں صوبہ سرحد کی دوسری کانگرسی وزارت بنائی گئی، جو قیامِ پاکستان کے بعد یعنی 22 اگست 1947ء کو اس بنیاد پر برطرف کر دی گئی کہ جولائی 1947ء کو صوبے میں ہونے والے ریفرنڈم میں آپ نے بحیثیتِ وزیرِ اعلا باچا خان اور خدائی خدمت گار تحریک کے ساتھ مل کر اس ریفرنڈم کی مخالفت کی۔ ڈاکٹر خان صاحب کو معزول کرتے ہوئے ضلع ہزارہ میں نظر بند کر دیا گیا، جہاں چھے برس تک نظر بند رہنے کے بعد 1954ء کو حکومت نے نظر بندی ختم کی اور مرکزی کابینہ میں شامل کیے گئے۔
اس دفعہ وزارتِ مواصلات کا قلم دان ان کے سپرد کیا گیا۔ 14 اکتوبر 1955ء کو ون یونٹ سکیم کے تحت مغربی پاکستان کے وزیرِ اعلا منتخب ہوئے، لیکن اگست 1957ء کو اسکندر مرزا نے ایک بار پھر ان کی وزارت کو برطرف کر دیا۔
قارئین، وزارت ختم ہونے کے بعد آپ لاہور میں اپنے بڑے بیٹے سعد اللہ خان کی سرکاری رہایش گاہ میں مقیم تھے جہاں 09 مئی 1958ء کی صبح میانوالی سے تعلق رکھنے والے سابق پٹواری عطا محمد نے ان سے ملاقات کی جو 1956ء کو عہدے سے برطرف کردیے گئے تھے۔
موصوف نے ڈاکٹر خان صاحب سے اپنے عہدے پر بحالی کے سلسلے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا مطالبہ کیا جس پر ڈاکٹر خان صاحب نے ان کو حصولِ انصاف کے لیے متعلقہ حکام سے ملنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مَیں اس مسئلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ یہ ایک قانونی مسئلہ ہے اور میرے دائرۂ اختیار میں نہیں۔
نتیجتاً عطا محمد وہاں سے اُٹھ کر چلے گئے لیکن کچھ ہی دیر بعد دوبارہ آئے اور ڈاکٹر خان صاحب پر چاقو کے پے در پے وار کیے، جس کی وجہ سے آپ شدید زخمی ہوگئے۔ واقعہ کے بعد اُنہیں فوراً میو ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
اُن کی میت خصوصی طیارے کے ذریعے پشاور لائی گئی جہاں شام کے وقت اُنہیں آبائی گاؤں اتمان زئی کے قبرستان میں اپنی شریکِ حیات “میری خان” کے سنگ سپرد خاک کردیا گیا۔ یوں قوم ایک محبِ وطن سیاست دان اور عظیم شخصیت سے محروم ہوکر رہ گئی۔
حکومت نے ڈاکٹر خان صاحب کے قاتل عطا محمد کو گرفتار کیا اور ان پر قتل کا مقدمہ چلایا۔ جرم ثابت ہونے کی بنا پر 10 فروری 1961ء کو اسے پھانسی دے دی گئی۔
_______________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو 24 جون 2022ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔