تاریخ کے سینے پر کچھ نام ایسے ثبت ہو جاتے ہیں جنہیں وقت کی گرد کبھی دھندلا نہیں سکتی۔ خیبر پختون خوا کی سیاست، مزاحمت اور امن پسندی کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی، بشیر احمد بلور شہید کا نام غیر معمولی فخر، عقیدت اور احترام کے ساتھ درج کیا جائے گا۔ وہ محض ایک سیاست دان یا صوبائی وزیر نہیں تھے، بلکہ وہ اس دھرتی کی غیرت، جرات اور پختون ولی کی وہ زندہ علامت تھے جس نے دہشت اور وحشت کے تاریک ترین دور میں بھی امن کا علم سرنگوں نہیں ہونے دیا۔
قارئین، شہید بشیر احمد بلور کی سیاست کا بنیادی محور عوامی خدمت، نظریاتی استقامت اور جمہوری اقدار سے غیر متزلزل وابستگی تھی۔ انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز عوامی نیشنل پارٹی (ANP) کے پلیٹ فارم سے کیا اور تادمِ مرگ اسی سرخ پرچم تلے فخرِ افغان باچا خان اور رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان کے فلسفۂ عدمِ تشدد پر ثابت قدمی سے کاربند رہے۔ ان کا پانچ مرتبہ صوبائی اسمبلی کا رُکن منتخب ہونا محض انتخابی کام یابی نہیں، بلکہ عوام کے گہرے اعتماد اور سیاسی وابستگی کا عملی اظہار تھا۔
بطورِ سینئر صوبائی وزیر، بشیر احمد بلور نے خیبر پختون خوا بالخصوص پشاور کی تعمیرِ نو، شہری ترقی اور انتظامی استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی نگرانی میں شروع ہونے والے کئی ترقیاتی منصوبے آج بھی شہر کے انفراسٹرکچر اور شہری منظرنامے میں ان کی بصیرت اور عملی سیاست کی گواہی دیتے ہیں۔
جس دور میں پشاور اور اس کے گرد و نواح بارود، خوف اور غیر یقینی کی لپیٹ میں تھے اور جب بڑے بڑے سیاسی رہ نما حفاظتی حصاروں میں محدود ہو چکے تھے، بشیر احمد بلور وہ واحد دبنگ لیڈر تھے جو ہر دہشت گرد حملے کے بعد سب سے پہلے جائے وقوعہ پر پہنچتے۔ وہ زخمیوں کے سرہانے کھڑے ہوتے، شہداء کے لواحقین کے آنسو پونچھتے اور دہشت گردی کے بیانیے کو کھلے عام للکارتے۔ ان کی یہ عملی موجودگی ریاستی رِٹ سے بڑھ کر عوامی اعتماد کی علامت بن چکی تھی۔
ان کا یہ قول آج بھی سیاسی اور عوامی حلقوں میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے: "جو رات قبر میں لکھی گئی ہے وہ کبھی گھر پر نہیں ہو سکتی، اور جو گھر پر لکھی ہے وہ قبر میں نہیں ہو سکتی۔”
یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک فکری یقین تھا جس نے انہیں نڈر، بے خوف اور ثابت قدم بنا دیا۔ جب پشاور کی فضا بارود کے دھوئیں سے بوجھل تھی، تب وہ ایک شیر دل رہ نما کی طرح گولیوں اور دھماکوں کی پروا کیے بغیر اپنے عوام کے درمیان موجود رہے۔ انہوں نے دہشت گردوں کو للکارتے ہوئے کہا: "تمہاری خودکش جیکٹیں ختم ہو جائیں گی، لیکن ہمارے سینے ختم نہیں ہوں گے۔” یہ الفاظ کسی وقتی جوش کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ ایک نظریاتی عہد تھے، جس کی توثیق انہوں نے 22 دسمبر 2012 کو اپنے خون سے کر دی۔
بشیر احمد بلور شہید پر متعدد خودکش حملے ہوئے، ان کے قریبی ساتھی شہید ہوئے، لیکن ان کے عزم میں کبھی لغزش نہ آئی۔ وہ موت سے خائف نہیں تھے؛ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے موت خود ان کی جرات دیکھ کر پسپا ہو جاتی ہو۔
22 دسمبر 2012ء کی شام پشاور کی تاریخ کی اداس ترین شاموں میں سے ایک تھی۔ قصہ خوانی بازار کے قریب ایک سیاسی اجتماع کے دوران میں ہونے والے خودکش حملے میں بشیر احمد بلور نے جامِ شہادت نوش کیا۔ انہوں نے بزدلوں کی طرح بستر پر مرنے کے بہ جائے اپنے عوام کے درمیان سینے پر وار سہنا قبول کیا۔ ان کی شہادت نے قیادت کے اس تصور کو عملی شکل دی کہ اصل لیڈر وہ نہیں جو بلٹ پروف گاڑیوں میں خود کو محفوظ کر لے، بلکہ وہ ہے جو اپنے کارکنوں اور عوام کے لیے ڈھال بن جائے۔
بشیر بلور کی شخصیت میں ایک عجیب کشش، بے باکی اور سچائی تھی۔ وہ حق بات کہنے سے کبھی گریز نہیں کرتے تھے، خواہ وہ اسمبلی کا ایوان ہو یا عوامی جلسہ، ان کا لہجہ دبنگ مگر دل نہایت نرم تھا۔ وہ غریبوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور ایک عام کارکن کو بھی عزت و وقار دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کی کمی صرف ان کے خاندان یا جماعت تک محدود نہیں بلکہ پورا صوبہ خود کو یتیم محسوس کرتا ہے۔
بشیر احمد بلور شہید کی لازوال قربانی اور جرات مندانہ جدوجہد کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کی 13ویں برسی کے موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے زیرِ اہتمام 28 دسمبر نمک منڈی پشاور میں ایک تعزیتی و فکری تقریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے، جو محض ایک یادگاری اجتماع نہیں بلکہ ان کے افکار کی تجدید اور ان کے مشن کی توسیع کا دن ہے۔ اس موقع پر تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد، سیاسی کارکنان، سول سوسائٹی اور عام شہریوں کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے، تاکہ اس عظیم رہ نما کو بھر پور خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکے جس نے پشاور کے امن کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
بشیر احمد بلور شہید کی قربانی ہرگز رائیگاں نہیں گئی۔ انہوں نے اپنی جان دے کر یہ ثابت کیا کہ امن کی قیمت اکثر خون سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ آج اگر پشاور کی رونقیں بحال ہیں اور ہم نسبتاً پُرامن فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں، تو اس میں بشیر بلور جیسے شہداء کے لہو کی آمیزش شامل ہے۔
وہ جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں، لیکن ان کی جرات، نظریہ اور یادیں ہمیشہ خیبر پختون خوا کے غیور عوام کے دلوں میں زندہ رہیں گی۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
_______________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: