مملکتِ خداداد کے مقتدرہ حلقوں کی جانب سے پیش کی جانے والی 27 ویں آئینی ترمیم درحقیقت صوبوں کے اختیارات پر حملہ، عدلیہ پر مزید کنٹرول اور سیاسی امور میں بہ راہِ راست مداخلت کا ذریعہ بننے کی کوشش ہے۔ یہ اقدام اُن اصولوں کی نفی ہے جن کے لیے پاکستان کی عوام نے ماضی میں جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف جیسے آمروں کے خلاف بے مثال مزاحمت دکھائی۔ اُن عظیم جمہوری کام یابیوں کو پسِ پشت ڈال کر دوبارہ ‘ون یونٹ’ طرزِ حکم رانی کی ناکام پالیسی کی طرف دھکیلنا چھوٹے قومیتوں میں بے چینی، انتشار اور نفرت کو ہوا دے گا۔
مزید یہ کہ موجودہ پالیسیاں داخلی استحصال کے ساتھ بین الاقوامی مفادات کی خاطر وسائل کا بے دردی سے استحصال بھی ممکن بناتی ہیں۔ مغربی بارڈر پر بڑھتی ہوئی جنگ کے دوران میں مقامی آبادی اور خیبر پختون خوا کی منتخب حکومت کو اعتماد میں نہ لینا واضح اشارہ ہے کہ مقصد ‘امن’ نہیں بل کہ معدنیات اور بیرونی منافع خوری ہے۔ پنجاب میں سیاسی فیصلوں کی شفافیت نہ ہونے، کارپوریٹ فارمنگ اور بڑے منصوبوں کے بارے میں عوامی شمولیت کی عدم موجودگی نے مسائل کو گہرا کیا ہے۔ سندھ میں ‘چھے کنال’ کے منصوبے کے خلاف عوامی ردِعمل نے ثابت کر دیا کہ شفافیت اور عوامی شمولیت کے بغیر کوئی منصوبہ پائیدار نہیں رہتا۔ اس کے باوجود اس شعور کو دبانے کے لیے نوجوانوں کے خلاف سخت آپریشنز اور اغواء جیسے واقعات شروع ہو چکے ہیں، جن کا مقصد مزاحمتی شعور کو ختم کرنا ہے۔ یہی پالیسی بلوچستان میں دہائیوں سے جاری ہے، جہاں معدنی وسائل کی ہوس نے ہزاروں نوجوانوں کی گمشدگی اور صوبے کو تنازع کے میدان میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایسے حالات میں اُن سیاسی جماعتوں سے امید رکھنا جو خود مراعات یافتہ قوتوں کے زیرِاثر آئیں، غیر حقیقی ہوگا۔ جو حقوق ہم سے چھینے جا رہے ہیں وہ کسی سرکاری عنایت کا نتیجہ نہیں، بل کہ لاکھوں شہداء اور مضروبِ جدوجہد کے بعد حاصل کیے گئے تھے اور ان کا تحفظ اب بھی ہماری اخلاقی و سیاسی ذمے داری ہے۔
اب وقت ہے کہ سماجی تحریکیں، تجارتی یونینیں، مقامی کارکنان اور سیاسی جماعتیں ایک وسیع، پُرامن اور نظامی اتحاد تشکیل دیں جو آئینی حقوق، صوبائی خود مختاری اور عدالتی آزادی کا دفاع کرے۔ اگر ہم نے خاموشی اختیار کی یا تقسیم پذیری کو بڑھنے دیا، تو ہمارا خطہ بیرونی اور اندرونی مفادات کے خانہ جنگی طرزِ کھیل کا مرکز بن سکتا ہے جہاں آواز اُٹھانا مشکل ہو جائے۔ لہٰذا آئیں، ہم سب مل کر پُرامن، منظم اور قانونی طریقوں سے اس بربریت کے خلاف مزاحمت کریں کیوں کہ اب یہ ہر شہری کی قومی ذمے داری ہے۔
____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
