آج یعنی 04 جولائی 2024ء کو برطانیہ میں عام انتخابات ہورہے ہیں۔ جس کے تحت آئندہ پانچ سال کے لیے 650 اراکینِ پارلیمان کا انتخاب کیا جائے گا۔
قارئین، یہ دنیا کا وہ طاقت ور پارلیمان ہے جس کی ایک قرار داد سے برِ صغیر پاک و ہند آزاد ہوجاتا ہے۔ لیکن یہاں جلسے ہوتے ہیں اور نہ ہی ریلیاں نکالی جاتی ہے۔ پوسٹر لگائے جاتے ہیں اور نہ ہی بینرز۔ اگر میڈیا نہ ہوتی، تو کسی کو پتا تک نہ چلتا کہ برطانیہ میں عام انتخابات ہورہے ہیں۔ کیوں کہ تمام تعلیمی ادارے، سرکاری دفاتر، بازار، کاروبار اور ہر کام معمول کے مطابق چل رہا ہے۔
صبح 07 بجے سے لے کر رات دس بجے تک آپ کو جب بھی فرصت ملے، آپ اپنی اپنی مرضی سے جاکر ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں ووٹ ڈالنے کی شرائط اتنی نرم ہے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔
قارئین، یہاں ہر شخص بلا کسی تفریق کے ووٹ ڈال سکتا ہے۔ حتٰی کہ سٹڈی ویزے پر آئے ہوئے لوگ بھی ووٹ ڈالنے کے حق دار ہیں۔
☆ ووٹ رجسٹرڈ کروانا یہاں لازمی ہے ورنہ آپ کو 80 پاؤنڈ یعنی 25 ہزار پاکستانی روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔
☆ ووٹ کے لیے شناختی کارڈ کے علاوہ ڈرائیونگ لائسنس یا کوئی بھی شناختی کاغذ قابلِ قبول ہے جس کے اوپر آپ کی تصویر لگی ہو۔
☆ اگر آپ کے لیے خود ووٹ ڈالنا ممکن نہیں، تو آپ کسی اور کو بھی یہ اختیار دے سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ بھی کسی اور کی جگہ ووٹ ڈال سکتے ہیں اگر وہ آپ کو نام زد کرے۔
☆ اگر آپ چاہے، تو بذریعہ ڈاک بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
☆ ووٹ ڈالنے کی تمام تر انتظامات “لوکل کونسل” نامی ادارہ کراواتا ہے۔
☆ الیکشن کمیشن پارٹی انتخابات اور پارٹی بجٹ سے لے کر عام انتخاب تک تمام انتخابی امور کے لیے واحد اتھارٹی ہے۔
قارئین، انگلینڈ میں انتخابات کے لیے طریقہ کار بہت سادہ ہے۔ محلے کے قریب کونسل نے ایک پولنگ سٹیشن بنایا ہوا ہوتا ہے۔ وہاں عملہ لسٹ میں آپ کا نام دیکھتا ہے، اس کے سامنے نشان لگواتا ہے اور ایک ووٹنگ بیلٹ (Voting Ballet) ووٹر کے حوالے کرتا ہے۔ ووٹر اپنے پسندیدہ امیدوار کے سامنے کچے پنسل سے کراس کا نشان لگاتے ہیں اور اس کو تَہ کرکے عملے کے سامنے میز پر پڑے باکس میں ڈالتے ہیں۔
نہ ناخن پر سیاہی، نہ انگوٹھی کا نشان، نہ شناختی کارڈ میں پنچنگ، نہ آر ٹی ایس (RTS) جیسے مہنگے سسٹم، نہ فارم 45 اور 47 کا رولا۔ نتائج مرتب کرنے میں دو دن تک لگ جاتے ہیں لیکن یہاں کوئی پاکستانی جیسے نام نہاد صحافی نہیں جو سرِ شام ٹی وی پر بیٹھ کر اپنی عدالت لگاتے ہیں۔
قارئین، اب ہم اگر الیکشن کے نام پر ہونے والے سرکس پر غور کریں، تو تین مہینوں سے اربوں روپے کا انتخابی مہم، پھر  شناختی کارڈ، انگوٹھے کے نشانات، پولنگ ایجنٹس کی فوج اور ہر قسم کے شفافیت اپنانے کے بعد آخر میں دھاندلی کا رولا۔
آپ کہیں گے کہ امیر ملکوں کے چونچلے الگ ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے کثیر آبادی والے غریب ممالک میں الیکشن ایسے ہی ہوتے ہیں۔ بھارت کی آبادی تو ہم سے سات گنا زیادہ ہے۔ غربت وہاں بھی ہے لیکن نگران حکومت کی بجائے برسرِ اقتدار پارٹی کے ہوتے ہوئے انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور حکومتی پارٹی ہار جاتی ہے۔
قارئین، اب ذرا سوچیں کہ مسئلہ کہاں پر ہے…؟ ہمارا دعوا ہے کہ ہم دنیا کی واحد ایمان دار قوم ہے۔ لیکن درحقیقت نیچے سے لے کر اوپر تک بے ایمانی اس قوم کے رگ رگ میں رچ بس چکی ہے۔ یہاں جج، جرنیل اور بیوروکریسی سمیت ہر کوئی اپنا کام چھوڑ کر سیاست میں لگا ہوا ہے۔ جب کہ سیاست دان جس کا کام سیاست کرنا ہے، اسے سیاست سے باہر رکھا جارہا ہے۔ مملکتِ خدا داد میں صرف وہی سیاست دان اقتدار میں آسکتا ہے جو مقتدر قوتوں کا منظورِ نظر ہو اور ان کی اشاروں پر ناچ سکتا ہو۔
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: