د لوگے پہ دی خار کے حاجت نشتہ د کارتوسو
غنم راوڑہ، جوار راوڑہ، اوڑہ راوڑہ سڑیا
وعدی د شرابونو سرابونہ دی صاحبہ
د تندی نہ مو مہ وژنہ اوبہ راوڑه سڑیا
ما ڈیر پہ احترام ووی چی خدائے خو دی باچا کڑہ
خو تا راپسی بڈه کے چاڑہ راوڑہ سڑیا
اقباله! دوی تہ خپل مخونہ هسی ہم معلوم دی
نو خیر دی ائینہ خو بہ دی نہ راوڑہ سڑیا
قارئین، 30 مارچ 2023ء کو خیبر پختون خوا کے ضلع لکی مروت میں دہشت گردوں کے حملے میں جان گنوانے والے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) اقبال مومند (شہید) امن کی خواہش کا اظہار اپنی شاعری میں کرتے تھے۔ پولیس کے مطابق اقبال مومند (شہید) کی گاڑی تھانہ صدر پر حملے کے بعد مزید نفری کے ساتھ پولیس سٹیشن جاتے ہوئے مائن دھماکے سے اُڑائی گئی۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی اور تنظیم کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں ڈی ایس پی اقبال مومند (شہید) پر طالبان جنگجوؤں پر حملوں کا الزام لگایا گیا۔
ڈی ایس پی اقبال مومند (شہید) گذشتہ تین سالوں سے لکی مروت کے مختف علاقوں میں ڈی ایس پی کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ اس سے پہلے وہ لکی موت کی تحصیلِ نورنگ کے ڈی ایس پی اور شہادت کے وقت لکی سٹی میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
قارئین، پشاور کے علاقے ادیزئی سے تعلق رکھنے والے اقبال مومند 1985 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی تصاویر اور شہادت پر اظہارِ افسوس کا نہ رُکنے والا سلسلہ آج یعنی 30 مارچ 2024ء کو صبح سے ان کی برسی کی مناسبت سے سوشل میڈیا پر جاری ہے۔ جس کی خاص وجہ ڈی ایس پی اقبال مومند کا شعر و ادب سے دلی لگاؤں تھا۔ کیوں کہ موصوف پشتو زبان کے ایک نابغہ شاعر اور ادیب تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پختونوں میں ان کے اشعار کو کافی پسند کیا جاتا ہے۔
ارمان ارمان ارمان چی پختانہ خپلو کے وران نہ وے
افسوس افسوس افسوس چی پختانه نہ راٹولیگی
قارئین، اقبال مومند (شہید) پختون قوم کے مجموعی بے حِسی کو اپنے ایک شعر میں کچھ یوں سمویا ہے کہ:
ہر يو سر خو سرکشی کولے نہ شی
پہ ہر قبر خو جھنڈے نہ لگی یارہ
جب کہ امتِ مسلمہ کے باہمی نا اتفاقی اور قتل و غارت پر بھی رنجیدہ نظر آتے ہیں۔ تب ہی تو کہتے ہیں کہ:
چی لاس د مسلمان د مسلمان پہ وينو رنگ شی
دا زڑہ می ڈير خفہ شی ڈیر خفہ شی محمدہ ص
چی لاس د مسلمان د مسلمان پہ وينو رنگ شی
دا زڑہ می ڈير خفہ شی ڈیر خفہ شی محمدہ ص
اسی طرح موصوف گذشتہ چار دہائیوں سے پختون سرزمیں پر مذہب کے نام پر جاری جنگ (نام نہاد جہاد) کو رد کرکے پختونوں کو سچے مسلمان قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
اقبالہ مونگہ دومرہ د دوزخ نہ یریدو
مونگ نہ راوڑہ تنخواہ ہم پہ حرامہ کہ منی
اقبالہ مونگہ دومرہ د دوزخ نہ یریدو
مونگ نہ راوڑہ تنخواہ ہم پہ حرامہ کہ منی
اقبال مہمند پیشے کے لحاظ سے تو ایک پولیس افسر تھے، تاہم وہ شاعری بھی کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے مطابق وہ انقلابی شاعر تھے۔
قارئین، پشاور یونی ورسٹی میں شعبہ صحافت کے استاد ڈاکٹر بخت زمان یوسف زئی نے اقبال مومند (شہید) کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلق کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ؛ وہ موصوف کو 2004ء سے جانتے ہیں جب وہ دونوں ریڈیو پاکستان میں “کاروان” نامی پروگرام کی میزبانی کرتے تھے۔ وہ ایک انقلابی شاعر اور اس خطے پر مر مٹنے والی شخصیت تھے جو کبھی جنگ کی بات نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ اپنے اشعار میں امن کی بات ہی کرتے تھے۔”
اقبالہ پلار می راتہ داسی وئیل
چی مینہ امن دے او کرکہ جنگ دے
خیبر پختون خوا پولیس میں ڈی پی او کے طور پر خدمات انجام دینے والے عمران کے مطابق اقبال مومند (شہید) ایک بہادر افسر ہونے کے علاوہ ایک متاثر کن شاعر تھے، جن کا کلام پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آتے ہیں۔ عمران نے اپنے ٹوئٹر پر اقبال مومند کے ساتھ ایک یادگار تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ “یہ اُس وقت کی تصویر ہے جب اقبال مومند نے اغوا برائے تاوان کی غرض سے اغوا نوجوان کو وزیرِستان کی پہاڑوں سے بازیاب کرایا تھا۔”
خپل مار گڈہ وا خپلہ تماشا کوا پاڑو
د خلکو د ذہنونو جنازہ کوا پاڑو
چی سہ دی پہ دی زڑہ رازی ھغہ کوا پاڑو
خو لوبہ د فریب پہ طریقہ کوہ پاڑو
د مار اور د نولی مقابلہ کوا پاڑو
خو خلک چی پہ جنگ شی فیصلہ کوا پاڑو
یقین دی پہ خپل فن او عقیدہ کوا پاڑو
مونگ سرہ د صدق یارانہ کوا پاڑو
دوی ھسی خوشالیگی پہ دلہ دلہ د خان
دی خلکو سرہ ھسی جوڑ تازہ کوا پاڑو
جومات کے یو سپین گیری مداری چاتہ وئیل
وادہ مہ کوا خیر دے ارادہ کوا پاڑو
دا گڈے دی دا ھر چاتہ سرونہ خوزہ وی
دوی سترگی پٹی کڑی دی قیصہ کوا پاڑو
مونگ حال نہ وایو چاتہ ستا د لاس د صفائی
خو تہ ھم کلہ کلہ گزارہ کوا پاڑو
اقبال خو دومرہ ھم نہ دے نانجاڑہ مثلاً
خبرے چی کوے نو پہ کنڈہ کوا پاڑو
قارئین، اقبال مومند (شہید) پختون خطے میں نہ ختم ہونے والی جنگ سے تنگ آچکے تھے۔ تب ہی تو کہتے ہیں کہ:
امن بہ راشی دا پختون وطن بہ خدائے اباد کڑی
نیکہ می پلار تہ، پلار می ماتہ، ما می بچو تہ وئیل
(امن آئے گا اور خدا اس پختون وطن کو آباد کرے گا
دادا نے والد کو، والد نے مجھے اور مَیں نے بچوں کو کہا)
اقبال مومند اپنے اشعار میں امن کا درس بھی دیتے نظر آتے ہیں۔ انہی کا لکھا ہوا ایک شعر کچھ یوں ہے:
ستا او زما پختو یوہ دہ خو بس
تہ پہ ٹوپک زہ پہ خبرہ مڑ یم
(تمھاری اور میری پشتو ایک ہی ہے لیکن
تم بندوق اور میں بات چیت پر مر مٹتا ہوں)
قارئین، اقبال مومند کا امن کے حوالے سے کچھ اشعار اُردو ترجمے کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔
دا سڑی پہ نوم سڑی وژنی اقبالہ
گنی زہ خو منکر نہ یم لہ جہادہ
چی تکمیل د امیدونو پکی خاندی
ہغہ دار تہ بہ اقبالہ پی خندا زم
یا خدایہ یو سو کالہ می نور امن کی وساتہ
ساہ بہ می د مور راپسی لاڑہ شی کا مڑ شومہ
(یہ بندے کے نام کے بندے مارتے ہیں
ورنہ میں تو جہاد کا انکاری نہیں ہوں
جہاں امیدوں کی تکمیل مسکرا سکے
اس دار تک میں خوشی سے جاؤں گا
اے خدایہ کچھ سالوں تک مجھے امن میں رکھیں
مری ماں کی سانس رُک جائے گی اگر مَیں مرگیا)
اللہ تعالا موصوف کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین۔
قارئین، جاتے جاتے اقبال مومند (شہید) کے ان اشعار پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ:
ماتہ مہ گورہ مستیگم خرابیگم
دا یم نور ھم نشہ کیگم خرابیگم
بس دے نور پہ زان پوھیگم خرابیگم
ستا د خوا نہ چی بیلیگم خرابیگم
د یقین پہ فضا سيورے د گمان دے
د خپل سیوری نہ ویریگم خرابیگم
زہ موسم کے د خزان پہ زان پوھیگم
د هر گل سره دوڑیگم خرابیگم
تہ شراب شراب مستی مستی خوریگے
زہ خمار خمار توئیگم خرابیگم
اوس خو ستاسو په نامہ باندی یادیگم
اوس کہ ستاسو نه ستنیگم خرابیگم
دا خو ستا پہ لمسہ لاڑمہ خائستہ
ما خو وی چی مئينیگم خرابیگم
د دی خار لہ شوره زم خو زڑہ می نہ زی
چی لہ خاره روانیگم خرابیگم
یو ملنگ غوندی باچا لرم اقبالہ
نو کہ بل چرتہ زائیگم خرابیگم
نوٹ؛ یہ تحریر موصوف کی پہلی برسی کی مناسبت سے شائع کیا جارہا ہے۔
_________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 05 اپریل 2024ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔