1951ء میں ماہِ فروری کا آخری جمعہ تھا۔ راول پنڈی کی فوجی چھاؤنی میں واقع کرِیگ روڈ پر ایک فوجی جنرل کی سرکاری رہائش گاہ میں درجن بھر کے قریب فوجی افسران، ایک جنرل کی بیوی اور کمیونسٹ پارٹی کے تین دانشور عشائیے پر جمع ہوئے۔ کیوں کہ وہاں مبینہ طور پر ایک اجلاس ہونا طے پایا تھا۔ اس اجلاس میں یہ تجویز زیرِ بحث آئی کہ آیا موجودہ حکومت کا تختہ الٹا جائے جو کہ اُس وقت امریکی بلاک میں شامل ہو چکی تھی۔ 23 فروری کی شام آٹھ گھنٹوں پر محیط طویل اجلاس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور اگر کوئی سازش کا منصوبہ تھا، تو اُس پر اتفاقِ رائے نہیں ہوا۔
اس واقعہ کے بارے میں سرکاری موقف یوں تھا کہ سازش میں شریک ایک پولیس انسپکٹر مخبر بنا، یوں یہ سازش پکڑی گئی۔ اس اجلاس کے دو شرکا نے بعد میں فوج کے کمانڈر ان چیف کو اطلاع دی کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی گئی ہے اور اطلاع دینے والے وعدہ معاف گواہ بن گئے۔
البتہ، سابق بیوروکریٹ حسن ظہیر کی کتاب (The times and trails of the Rawalpindi conspiracy 1951) کے مطابق، صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) کی پولیس کے ایک انسپکٹر نے اس واقعے کی مخبری اُس وقت کے گورنر صوبہ سرحد ابراہیم اسماعیل چندریگر (آئی آئی چندریگر) کو کی تھی، جس کے بعد یہ "سازش” پکڑی گئی۔
قارئین، وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے 14 دن بعد یعنی 09 مارچ 1951ء کو حکومت کا تختہ الٹنے کی مبینہ سازش کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ؛ کچھ ہی دیر پہلے پاکستان کے دشمنوں کی ایک سازش پکڑی گئی ہے۔ اس سازش کا مقصد یہ تھا کہ تشدد کے ذریعے ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلائی جائے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر افواجِ پاکستان کی وفاداری کو بھی ملیامیٹ کر دیا جائے۔
حکومت کو ناپاک ارادوں کا بروقت علم ہو گیا، چنانچہ اس سازش کے سرغنوں کی گرفتاری آج ہی عمل میں آئی ہے۔ یہ افواج کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل اکبر خان، بریگیڈیر کمانڈر متعین کوئٹہ، بریگیڈیئر ایم اے لطیف، پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض اور میجر جنرل اکبر خان کی بیگم، مسز اکبر خان (نسیم جہاں شاہ نواز) ہیں۔
اس سے پہلے کہ سازش کی جڑیں مستحکم ہوتیں، یہ ہم سب کی خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اس کا علم ہو گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے بارے میں سُن کر جس طرح مجھے ازحد صدمہ ہوا ہے، اسی طرح عوام کو بھی شدید رنج ہوا ہوگا۔”
قارئین، وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے جس "سازش” کا اعلان کیا تھا وہی بعد میں "راول پنڈی مقدمہ سازش” کہلایا۔ کیوں کہ اس مبینہ سازش میں شریک چار سویلین اور گیارہ فوجی افسران پر مقدمہ چلانے کےلیے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں ایک خصوصی ٹربیونل قائم کرنے کےلیے نیا قانون بنایا گیا تھا، جو "راول پنڈی کانسپیریسی ایکٹ (سپیشل ٹربیونل) 1951ء” کہلایا۔