دَ دار پہ سر بہ روغانے د مرگ پہ خوب اُودہ وی
تہ چی رازے او بیا رازے او لا رازے سپرلیہ
مسکاتا چہرہ، میانہ قد، ستواں ناک، بال بھونسلے، ہلکی سی سفید داڑھی، ماتھے پر جھریوں کا راج اور گندمی رنگت والی یہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے بابائے قطعہ عبدالرحیم روغانیؔ (مرحوم) کی ہے۔
موصوف تحصیلِ مٹہ کے مردم خیز گاؤں کوزہ درشخیلہ میں 15 جنوری 1950ء کو مولوی عبیداللہ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ زندگی ہمیشہ گردش میں رہی۔ تبھی تو کبھی لوند خوڑ، تو کبھی کالا کلے، شیرپلم، بانڈئی اور آخری ایام گل کدہ مینگورہ میں گزارے۔
موصوف فخرِ سوات، فلسفی، شاعر، ادیب اور بابائے قطعہ جیسے القابات سے پکارے جاتے تھے۔ بابا نہ صرف اپنوں بلکہ غیروں میں بھی یکساں مقبول تھے۔ اُن کی پہلی کتاب “نوی نغمہ” (1998ء اور 99ء) نے ہی انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ یہاں تک کہ مذکورہ کتاب کا روسی زبان میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے اُن کو دورہ روس کا دعوت نامہ بھی آیا تھا لیکن بوجوہ نہ جا سکے۔
قارئین، روغانیؔ صاحب کے اشعار میں مقصدیت اور مٹھاس کے ساتھ گیرائی و گہرائی ہونے کی وجہ سے اس کو دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ جرمنی میں میونخ یونی ورسٹی کے گیٹ پر لکھا گیا اُن کا ترجمہ شدہ قطعہ نہ صرف اُن کے لیے بلکہ بحیثیتِ قوم ہم سب کے لیے باعثِ فخر ہے۔ مذکورہ قطعہ ملاحظہ ہو:
سومرہ چی کیگی درنہ راشہ ترے خوندونہ واخلہ
مدام بہ نہ وی دا خارونہ بازارونہ گورے
دسیکنڈئی ستنے ٹک ٹک وڑوکے سیز مہ گنڑہ
د جوند پہ ونہ دے دتبر گوزارونہ کوی
عبدالرحیم روغانےؔ نہ صرف ایک اعلا پائے کے شاعر بلکہ ایک بہترین نثر نگار بھی تھے۔ اُن کی نثری دو کتابوں میں “خود غرض” اور “کوربانہ خیالونہ” شامل ہیں۔ جن میں اوّل الذکر کا ترجمہ لندن میں (The sacred spirit of selfishness) کے نام سے ہوچکا ہے اور عوام میں کافی مقبول بھی ہے۔ جب کہ “کوربانہ خیالونہ” کا اُردو ترجمہ ہوچکا ہے۔
شاعری میں اُن کی پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں “نوی نغمہ”، “زوریدلی احساسات”، “سندریز احساس”، “دَ رنڑا ساسکی” اور “سندرے او خبرے” شامل ہیں۔ “سندرے او خبرے” نامی کتاب میں شاعری اور نثر دونوں میں شامل ہے۔
ویسے تو بابا مادری زبان و ادب کے لیے بیش بہا خزانہ چھوڑ چکے ہیں اور زندگی میں ہی شہرت کے بلندیوں پر پہنچ چکے تھے، لیکن بدقسمتی سے اُن کو ہماری طرف سے وہ قدر و منزلت نہ ملی جس کے وہ حق دار تھے۔ ہاں افغانستان میں اُن کے نام پر ایک ہوٹل ضرور بن چکا ہے۔ بابا پشتون قوم کی اپنی مادری زبان سے محبت سے خوب واقف تھے، جس پر بارہا طنز بھی کرچکے ہیں۔
عبث نظمونہ روغانیہؔ پہ پختو کے لیکے
پختانہ نن ھم د پختو ژبہ لوستلے نہ شی
بابا کو مادری زبان پشتو پر عبور حاصل تھی۔ اسی لیے پشتو ہی میں شعر و شاعری اور نثر نگاری کیا کرتے تھے۔ لیکن کبھی کبھار اُردو زبان میں بھی خامہ فرسائی کرتے تھے، جو اُن کا قومی زبان سے محبت کا بین ثبوت ہے۔ اُن کا ایک اُردو قطعہ ملاحظہ ہوں:
پیدا ہوئے ہیں اس قسم کے لوگ یہاں بھی
گدھے چَراتے بھی ہیں، چُراتے بھی ہیں گدھے
دانائی، فراست و ذہانت کی وجہ سے
گدھوں کو جگاتے ہیں، سُلاتے بھی ہیں گدھے
اصل میں بابا کی پہچان پشتو زبان ہی ہے اور ان خدمات ہی کے بل پر ان کا نام ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا اور تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اُن کی شاعری میں بہترین تشبیہات و استعارات کے ساتھ حق، سچ اور انصاف کی بات بھی ہوتی ہے۔ اس آفاقی شاعر کی شاعری میں قاری کے لیے ایک خاص پیغام ہوتا ہے۔ جب کہ معاشرتی مسایل دل چسپ پیرائے میں مِزاح کے ساتھ طنز کا بھر پور تڑکا لگا کر پیش کرتے ہیں۔
قارئین، کالم کی تنگ دامنی کا حرج قلم کی باگ روکنے پر مجبور کررہا ہے، ورنہ اس عظیم شخصیت پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے اور لکھنا بھی چاہیے۔
آخر پشتو زبان وادب کا یہ درخشندہ ستارہ علالت کے بعد 24 فروری 2021ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ یوں پشتو شاعری کے ایک عہد کا اختتام ہوگیا۔ خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، آمین۔
ستورے د صبا پہ راختو خکاری
دور د تیاروں مو پہ وتو خکاری
فتح بہ رنڑا پہ تیارہ اومومی
تندر پہ تور تم د پریوتو خکاری
_________________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو روزنامہ آزادی سوات نے 02 دسمبر 2021ء کو پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا تھا۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔