سلیم شہزاد اپنی کتاب “انسائیڈ القاعدہ اینڈ دی طالبان بیانڈ بن لادن” (Inside Al-Qaeda and the Taliban: Beyond Bin Laden) میں لکھتے ہیں کہ 24 اپریل 2004ء کو جنوبی وزیرِستان میں نیک محمد اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جسے تاریخِ پاکستان میں “شکئی امن معاہدہ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ پاکستان مخالف شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان اپنی طرز کا پہلا امن معاہدہ تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل علی محمد جان اورک زئی کی کتاب “بیانڈ تورا بورا” (Beyond Tora Bora) کے مطابق پاکستانی فوج کی جانب سے لیفٹینٹ جنرل صفدر حسین نے 27 سال کے نیک محمد سے ملاقات کی۔
سلیم شہزاد کے مطابق اس معاہدے سے قبل پاکستانی فوج نے وزیرستان میں اُس وقت امریکا کے دباؤ پر “کلوشہ آپریشن” شروع کیا، جب افغانستان سے القاعدہ سے منسلک غیر ملکی جنگجو وہاں منتقل ہوئے۔ تاہم فوج کو آپریشن میں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا، جس کے بعد بات چیت کا فیصلہ کیا گیا۔
اسٹیو کول (Steve Coll) نے اپنی کتاب “ڈائریکٹوریٹ ایس” (Directorate S) میں لکھا ہے کہ نیک محمد پر الزام تھا کہ ان کی پناہ میں غیر ملکی جنگجو تھے جو افغانستان اور پاکستان میں کار روائیاں کر رہے تھے۔ بعض رپورٹس کے مطابق اُس وقت یہ تعداد چار سو تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ نیک محمد کی پناہ میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عرب، اُزبک، چیچن اور افغان جنگجو تھے جب کہ افغان طالبان سے منسلک افراد بھی شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نیک محمد پہلے ہی امریکا کی ہٹ لسٹ (Hit List) پر تھے۔ ڈائریکٹوریٹ ایس کے مطابق اس سے قبل جب 2003ء میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر پہلا قاتلانہ حملہ ہوا، تو امریکا کی خفیہ ایجنسی نے انھیں بتایا کہ اس حملے میں نیک محمد کا ہاتھ ہے۔ اسلام آباد میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف نے پرویز مشرف سے ملاقات کی اور انھیں قایل کرنے کی کوشش کی کہ وہ نیک محمد کے خلاف آپریشن کریں۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو انھیں مارنا پڑے گا ورنہ یہ ہمیں مار دیں گے۔
پاکستان نے آپریشن میں موثر نتائج حاصل نہ ہونے پر نیک محمد کو مذاکرات کی پیش کش کی جسے نیک محمد نے قبول کیا۔ سلیم شہزاد اپنی کتاب میں اس معاہدے کی شقوں سے متعلق لکھتے ہیں کہ “شکئی امن معاہدے” کے مطابق پاکستان نے یہ شرط قبول کی کہ وہ نیک محمد کے گرفتار ساتھیوں کو رہا کرے گا جب کہ فوجی آپریشن کے دوران ہونے والے نقصان کے ازالے کےلیے مقامی افراد جن میں جنگجو شامل ہیں، کو رقم دی جائے گی۔ ڈان نیوز کے مطابق معاہدے کی پاس داری کرتے ہوئے شدت پسندوں کو رقم دی گئی، تاکہ وہ القاعدہ سے لیا گیا قرض واپس کر سکیں۔
سلیم شہزاد لکھتے ہیں کہ نیک محمد سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ غیر ملکی جنگجووں کی تفصیل دیں گے اور افغانستان میں حملے بند کریں گے۔
اُس وقت بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق معاہدے پر دستخط کے بعد نیک محمد نے غیر ملکی جنگجووں کو فوج کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق شدت پسندوں نے ان مقامی عمایدین کو قتل کرنا شروع کر دیا جنھوں نے ان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مدد کی تھی۔
یہی تجزیہ سلیم شہزاد نے اپنی کتاب میں دیا اور لکھا کہ “تکنیکی طور پر 2004ء میں ہونے والے شکئی امن معاہدے نے القاعدہ اور قبایلی علاقوں میں ان کے اتحادیوں کو مضبوط کیا اور انھیں وہ سپیس دی جو ایک جنگ کے لیے چاہیے تھی۔ جنوبی وزیرِستان (محسود اور وزیر قبایل) کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب ان کے پاس ایک آپریشنل بیس موجود تھی۔
اُس وقت سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی (مرحوم) نے امریکی خبر رساں ادارے پی بی سی کو لکھا کہ اس معاہدے نے نیک محمد، جو اس سے پہلے قبایل میں خاص اثر و رسوخ نہیں رکھتے تھے، کو انتہائی مضبوط کیا۔
شکئی معاہدہ دستخط ہونے کے بعد ہی ختم ہو گیا۔ کیوں کہ قبایلی علا قوں میں رہنے والے غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کی شرایط پر ہونے والے معاہدہ شکئی پر دستخط ہوئے چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ نیک محمد نے ایک انٹرویو میں اعلان کر دیا کہ وہ پہلے کی طرح القاعدہ سے بھر پور تعاون جاری رکھے گا یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ “شکئی امن معاہدہ” کی کوئی حیثیت نہیں۔ ابھی مولوی نیک محمد کے اس انٹر ویو کی باز گشت جاری تھی کہ ایک ہفتے بعد اس نے ایک اجتماع میں کھلے عام جنرل مشرف کو قتل کرنے کا اعلان کر تے ہوئے اس معاہدے کے غبارے سے رہی سہی ہوا بھی نکال کر رکھ دی۔ اس کے بعد یعنی 06 جون کو پاکستان کی سر زمین پر امریکا کی جانب سے پہلا ڈرون حملہ کیا گیا جس میں مولوی نیک محمد ہلاک ہو گیا۔
اسٹیوکول نے اپنی کتاب “ڈائریکٹوریٹ ایس” میں نیک محمد کی ہلاکت کے بارے میں لکھا ہے کہ ٹھیک ایک ماہ بعد جب نیک محمد اپنے اس سیٹلائیٹ فون پر کسی سے گفتگو کر رہے تھے جس پر وہ ریڈیو کو انٹرویو دیا کرتے تھے، امریکی حکام نے اس کال کو انٹرسیپٹ کیا اور اس وقت وزیرِستان کے اوپر موجود ڈرون سے “ہیل فائر” نامی میزائل فائر کیا گیا جس میں نیک محمد ہلاک ہو گئے۔
شیئرکریں: