قارئین! بہت ہی افسوس ناک بات ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان میں ’’غداری کارڈ‘‘ پھر سے کھیلا جا رہا ہے۔ اس دفعہ یہ کارڈ کسی اور نے نہیں بلکہ وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے سب سے قد آور مخالف سیاسی لیڈروں کے خلاف استعمال کیا ہے۔ مَیں تو حیرت میں مبتلا ہوں کہ اس کارڈ کی ضرورت کیوں پیش آئی…؟
کیا کرپشن کارڈ زیادہ چل نہیں پایا، یا کوئی اور وجوہات تھیں؟
کیا وزیر اعظم نے اپوزیشن کو بدنام کرنے کی خاطر ’’غداری کارڈ‘‘ استعمال کرنا ایک بہتر اور مؤثر ذریعہ سمجھا، یا پھر اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی طور پر متحرک ہونے سے وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے ہیں…؟
قارئین! غداری کارڈ کا آغاز اور استعمال جاننے کے لیے ہمیں تاریخ کے اوراق سے گرد اُڑانا ہوگی کہ کب، کس کو اس کارڈ سے نوازا گیا…؟
تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں اپنے کسی بھی سیاسی حریف کو غدار قرار دینے کا سلسلہ ملک کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے بنگالی لیڈر حسین شہید سہروردی کو قرار دے کر شروع کیا تھا۔ اس کے بعد ایوب دور میں قائداعظم کی ہمشیرہ اور صدارتی امیدوار فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا گیا۔ خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کو بھی غدار کہا گیا۔ بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) اور اس کے رہنماؤں پر بھی غداری کے مقدمات قائم ہوئے ۔ پھر اسی ذوالفقار بھٹو کو ملک دو لخت کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور پیپلز پارٹی تمام تر کوششوں کے باوجود ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ کے مبینہ بیان جیسے دھبے کو مٹا نہیں سکی۔
جام صادق اور غلام مصطفی کھر پر بھی غداری کے الزامات لگے اور انہیں انڈین ایجنٹ قرار دیا گیا۔ بلوچستان کے معروف پختون قوم پرست رہنما عبد الصمد خان اچک زئی، سردار عطاء اللہ خان مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری اور نواب اکبر بگٹی بھی غداری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔ اس طرح ضیائی دور میں ایم آر ڈی کے کئی راہنماؤں کو بھی غداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح سندھیوں کے قوم پرست لیڈر جی ایم سید جنہوں نے تحریک پاکستان کےلیے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ایک فعال کردار ادا کیا تھا، کو بھی غدار قرار دیا گیا۔ مکافات عمل کہیے، یا سیاسی مجبوریاں کہ نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دیا، تو بلاول بھٹو زرداری نے انہیں مودی کا یار قرار دے کر بدلہ لیا۔ ڈان لیکس میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو غدار قرار دے کر سوشل میڈیا پر ان کے خلاف بھرپور مہم چلائی گئی۔ محض سیاست دان ہی نہیں بلکہ وطنِ عزیز پاکستان میں شاعروں اور ادیبوں کو بھی غداری کے فتوؤں کا سامنا رہا ہے۔ فیض احمد فیضؔ، حبیب جالبؔ اور احمد فرازؔ بھی غداروں کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔
اس حوالے سے سینئر صحافی ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ آج تک جس پر اس طرح سے غداری کا الزام لگا ہے۔ عدالتوں میں یا تو اسے کبھی لے جایا ہی نہیں گیا، یا پھر کبھی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا۔ تاہم جس پر الزام لگا، اس کو کسی نہ کسی طریقے سے سزا ضرور دی گئی۔
قارئین! شیخ مجیب پر جب غداری کا لیبل لگا، تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔ بھٹو کو قتل کے مقدمے میں پھانسی لگوا دی گئی۔ رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان اور ’’مومنٹ فار ریسٹورنگ آف ڈیموکریسی‘‘ (ایم آر ڈی) کے لوگوں کو جیلوں میں بھیج دیا گیا، لیکن ان پر لگے الزامات آج تک ثابت نہیں کیے جاسکے۔
وطنِ عزیز کی پچھلے 73 سالہ تاریخ میں یہ کارڈ ہمیشہ چھوٹے صوبوں کی قد آور سیاسی شخصیات کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے، جس کی وجہ سے دوسرے صوبوں کو پنجاب سے ہمیشہ شکایت رہی۔ اب چوں کہ وقت بدل گیا ہے، حالات بدل گئے ہیں، تو غداری کارڈ بھی پنجاب کا رُخ کر گیا۔ پہلی دفعہ یہ کارڈ پنجاب سے تعلق رکھنے والے بڑے لیڈروں کے خلاف کھیلا جا رہا ہے۔ اب اس کے دور رس سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور تین دفعہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر قد آور شخصیات پر غداری کا الزام لگا کر انہیں طرح طرح کی اذیتیں دی جا رہی ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حکومت کو خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت دیگر قوتوں کے ایما پر غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے سے باز رہے۔ کیوں کہ کل یہ سرٹیفکیٹ ان کو بھی مل سکتے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم آزاد کشمیر کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہونے پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ غداری کے مقدمات ملک کی بدقسمتی نہیں، تو اور کیا ہیں…؟ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کہاں سے ملتے ہیں، تاکہ ہم بھی اپلائی کریں۔
قارئین! یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماضی میں جن لوگوں کو غدار ٹھہرایا گیا، ان میں سے زیادہ تر کو قوم نے غدار تسلیم نہیں کیا۔ کیوں کہ لوگوں نے اسے ایک ناقص سیاسی حربہ ہی سمجھا۔ فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان، محترمہ فاطمہ جناح، جی ایم سید اور حسین شہید سہروردی کی عزت و توقیر میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ البتہ انہیں غدار کہنے والوں کی اپنی کوئی حیثیت تاریخ کے صفحات پر رقم نہیں۔
اب جب کہ پنجاب جیسے بڑے صوبہ کو بھی اس گیم میں گھسیٹا جا رہا ہے، تو اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں رہے گا۔ لہٰذا حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ کیوں کہ موجودہ حالات میں وطنِ عزیز پاکستان کو غداری کارڈ کھیل کر منتشر کرنے کی نہیں بلکہ متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ عمران خان اس کارڈ کو واپس جیب میں رکھ لیں، اس سے پہلے کہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے اور پھر کف افسوس ملنے کے سوا چارہ کچھ نہ ہو!
________________________________
محترم قارئین! راقم کے اس تحریر کو 03 نومبر 2020ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بارشرف قبولیت بخش کرشائع کروایا تھا۔
شیئرکریں: