بعض لوگ کارخانہ ایزدی کی طرف سے اس اُجڑے ہوئے دیار کےلیے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوتے ہیں، اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر عقدہ کشا بن جاتے ہیں۔ ان با کمال ناخداؤں کی زندگی کا ہر ایک باب تابناک اور سبق آموز ہے۔ ان کی بچپن پر نظر دوڑائیں یا طالبِ علمی کے زمانے کے احوال پڑھیں، معلمانہ زندگی دیکھیں یا ادبی خوبیاں، ہر جگہ روشنی ہی روشنی نظر آتی ہے۔ انہی نباضِ قوم و ملت میں ایک معتبر حوالہ وادی سوات سے تعلق رکھنے والے ”سعیداللہ خادم“ بھی ہے، جنہوں نے پشتو زبان و ادب میں اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنا ایک الگ مقام بنایا ہے۔
متوسط جسم، میانہ قد، سرخ و سپید چہرہ، سفید داڑھی، مناسب کالی مونچھیں جن میں ایک آدھ سفید بال، روشن آنکھیں، چال ڈھال میں سلاست روی، آواز میں دھیما پن، پر تاثیر لہجہ اور من موہنی مسکراہٹ جس نے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔
آپ کا اصل نام سعید اللہ جب کہ خادمؔ تخلص ہے۔ آپ یکم مئی 1968ء کو یوسف زئی قبیلے کے اکاخیل خاندان میں محمد کریم کے گھر اشاڑی مٹہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے گورنمنٹ پرائمری سکول سے حاصل کی، جب کہ میٹرک کا امتحان 1985ء کو گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول برہ درش خیلہ سے پاس کیا۔ پھر 1988ء کو ایف اے کا امتحان پشاور بورڈ سے پرائیویٹ طور پر پاس کیا۔
آپ ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ بیٹھے اور اپنی شاعری کا باقاعدہ آغاز 1990ء کو تور ورسک بونیر میں اپوائنٹمنٹ کے بعد کیا۔ آپ کے شاعر بننے کی داخلی عوامل میں آپ کی شاعری سے دلی لگاؤ، جب کہ خارجی عوامل میں اُس وقت کے حالات شامل تھے۔ آپ کی شاعری کا فنی خوبی اور بنیادی وصف اس کی سلاست اور روانی ہے، لیکن خیال اور جذبہ تک پہنچنا آسان نہیں، کیوں کہ آپ کی شاعری مشکل راہوں پر چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری کےلیے بہت جلد اُن کی شعر سے معنی اخذ کرنا مشکل ہے۔ اس حوالے سے حکیم اللہ بریالؔے کچھ یوں لکھتے ہیں: ”خادم صاحب دوسروں کی غیبت اور بے عزتی کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔ جس قدر ان کی باتیں میٹھی اور رسیلی ہے، اس قدر ان کی شاعری میں مٹھاس ہے۔ آپ کی شاعری گہری ہے جو آسانی سے عام قاری کی سمجھ میں نہیں آتی، سمجھنے کےلیے قاری کو کئی بار سمندر میں غوطہ لگانا پڑتا ہے۔ بقولِ روغاؔنے بابا! خادم صاحب صحیح معنوں میں ”حمزۂ سوات“ ہیں۔“
آپ کی ابتدائی شاعری رومانیت کے عطر بیزی سے معطر دیکھائی دیتا ہے۔ موصوف نے 2000ء میں اپنا پہلا شعری مجموعہ ”جوند او جانان“ کے نام سے شائع کیا، جس میں ذیادہ تر رومانیت کو چھیڑا گیا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اُنہوں نے اپنے قلم کی باگ پشتون قوم کی اُلجھی ہوئی حالات کی طرف موڑتے ہوئے اسے شعر میں بہتر انداز سے سمویا۔
آپ مختلف موضوعات پر شاعری کے مختلف اصناف یعنی غزل، نظم اور قطعہ وغیرہ پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہیں کہ ”صنف جو بھی ہو، مسئلہ صنف کا نہیں بلکہ ایک موثر پیغام کا ہے۔ جس صنف میں بھی ایک مثبت اور موثر پیغام اُجاگر ہوسکتا ہے، اسے میں ہی لکھنا چاہیے۔“ لیکن خود آپ کا پسندیدہ صنف غزل ہے، کیوں کہ غزل ہی آپ کی وجہ شہرت ہے۔ اسی لیے غزل لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کی ایک غزل کا مقطع ملاحظہ ہو:
زما آرزو خو دَ محل بہ پہ سہ چل پورہ شی
خو بیا بہ سنگہ آرزوگانے دَ محل پورہ شی
آپ کے بقول! ”مجھے وہ تمام شعراء پسند ہیں جو پشتو زبان و ادب اور پشتون قوم کی خدمت کررہے ہیں۔“ لیکن پھر بھی اپنے آئیڈیل شعراء میں حمزہ بابا، رحمت شاہ سائلؔ، عبدالرحیم روغانؔے، محمد حنیف قیسؔ اور محمد گل منصورؔ جیسے قدآوروں کے نام گردانتے ہیں۔
قارئین! خادم صاحب پشتو زبان کے علاوہ اردو میں بھی کمال کی شاعری کرتے ہیں، کیوں کہ اُنہیں پشتو زبان کے علاوہ اردو زبان پر بھی خوب دسترس حاصل ہیں، اسی لیے آپ کا آنے والا شعری مجموعہ اردو ہی کا ہوگا۔ جب ایک درویش انسان جنونِ عشق سے نکل کر دنیا کا سامنا کرتا ہے، تو دنیا سے اس کا مِلن کس طرح ہوسکتا ہے…؟ اس کیفیت کو خادمؔ صاحب اردو کے ایک شعر میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
کیا قیامت ہے کہ مجھ سے دشت گھبرانے لگا
اے جنونِ عشق میں کیوں ہوش میں آنے لگا
قارئین! شعراء اور ادباء کے عزت افزائی کی خاطر ان کو القابات سے نوازنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، کیوں کہ ماضی میں بھی بہت سے شعراء اور ادباء کو مختلف القابات مل چکے ہیں۔ اسی لیے اُن کی گراں قدر خدمات کے صِلے میں وادی سوات کے سفید ریش شاعر اور بابائے قطعہ عبدالرحیم روغاؔنے نے آپ کو ”حمزۀ سوات“ کے لقب سے نوازا۔ جن کے بارے میں روغانے کچھ یوں فرماتے ہیں: ”سعیداللہ خادمؔ میرا پسندیدہ شاعر ہیں، ان کا شمار وادی سوات کے صف اول شعراء میں ہوتا ہے۔ میں بہ ذاتِ خود اِن کی شخصیت، فن اور فکر سے اس حد تک متاثر ہوں کہ انہیں "حمزۀ سوات” کے لقب سے پکارتا ہوں۔“
آپ ”ادبی ٹولنوں“ اور مشاعروں سے خود کو کچھ دور ہی رکھتے ہیں جس کی وضاحت کچھ آپ کچھ یوں کرتے ہیں: ”ادبی ٹولنے“ فنڈ کی کمی اور وسائل کی عدم دستیابی کا شکار ہے اس لیے ٹولنے معیاری کتب شائع کرنے سے قاصر ہیں۔ آج کل ”ٹولنے“ محض مشاعرے ہی منعقد کرسکتے ہیں۔ جب کہ مشاعروں کے حوالے سے آپ کچھ یوں فرماتے ہیں: ”مشاعروں سے ایک مثبت اور موثر پیغام اُجاگر ہونا خامِ خیالی ہے کیوں کہ مشاعرے میں ہمیشہ وہی کلام پڑھ کر سنایا جاتا ہے جس سے شاعر کو داد ملنے کی توقع ہو۔“
آپ ادب میں اصلاحی تنقید کے بڑی حد تک قائل ہیں جس کا اقرار کچھ یوں کرتے ہیں: ”ادب کو ترقی سے ہم کنار کرنے کےلیے ہمیں تنقید برداشت کرنا ہوگی، کیوں کہ تنقید ہی کی وجہ سے ادب اپنی ارتقائی منازل طے کرسکتی ہے۔“
قارئین! سعید اللہ خادم ایک بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے نثرنگار بھی ہیں، جنہوں نے حال ہی میں خط نسخ اور نستعلیق پر تحقیقی کتاب ”اداگانے دہ قلم“ لکھ کر پشتو ادب کے جھولی میں ڈال دیا ہے۔ اس تحقیق سے نہ صرف نوجوان شعراء اور محققین فائدہ اُٹھا سکیں گے، بلکہ بی ایس پشتو کے طلبہ بھی مستفید ہو سکیں۔
گورنمنٹ افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ شعبہ سوشیالوجی کے لیکچرار وقار احمد جو کہ سعیداللہ خادمؔ کے اقرباء میں سے ہیں، اس لیے اُن کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع اکثر اُنہیں ملتا ہے۔ بقولِ وقار احمد! ”خادم صاحب نرم مزاج، قدر دان اور دھیمے لہجے کے مالک ہیں۔ دوسروں کی رائے، خیالات اور مافی الضمیر کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری معنی خیز اور متنوع پیغامات سے بھری پڑی ہے، جس میں سیاسی، سماجی اور گھریلوں مسائل واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
قارئین! جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا اُنہیں اپنی قوم کی خدمت کرنے کا بھرپور موقع دے، آمین
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
_________________________________
محترم قارئین! راقم کے اس مضمون کو 29 مئی 2020ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بارشرف قبولیت بخش کرشائع کروایا تھا۔