دنیا میں ڈھیر سارے رشتے ایسے ہوتے ہیں جو انسان سے جڑے ہوتے ہیں اور انسان ان رشتوں کے دم سے زندہ اور خوش و خرم رہ سکتا ہے۔ ان میں ایک والدین کا اور دوسرا استاد اور شاگرد کا رشتہ ہے۔ دونوں رشتوں کو مقدس گردانا جاتا ہے۔ دونوں میں ادب و احترام کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
قارئین! اگر استاد کی ذات پر بات ہو، تو دل میں عزت و احترام امنڈ آتا ہے۔ استاد کی ہستی کو الفاظ کے موتیوں میں پرو کے لکھنا ایک شاگرد کےلیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے، لیکن راقم یہ جسارت کرنے جا رہا ہے۔ تبھی تو اپنے جذبات و احساسات کو ٹوٹے پھوٹے الفاظ کا جامہ پہنا کر اپنے شفیق استاد، کھل کھلا کر ہنسنے والے دوست اور آئیڈیل شخصیت پر خامہ فرسائی کرنے جارہا ہوں۔
استاد محترم کااندازِ بیاں انوکھا، منفرد سوچ و نظریات کے ساتھ ساتھ مثبت رویہ بھی روا رکھتے ہیں۔ ان خوبیوں کی بنا پر آپ سماج میں ممتاز اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔
میانہ قد، متناسب جسم، نہ دبلا نہ پتلا، سانولی رنگت، خش خشی کالی داڑھی، مناسب مونچھ، من موہنی مسکراہٹ، متناسب ناک، نرم لب و لہجہ، شیریں گفتاری، کانوں میں رس گھولتی آواز اور جھیل ایسی گہری آنکھیں جن پہ نازک سا نظر کا چشمہ سجائے ان کی دل کش شخصیت کا غماز ہے۔ گرمیوں میں سفید کاٹن اور واسکٹ، جب کہ سردیوں کے موسم میں اونی کپڑے اور “اوور کوٹ” پہنتے ہیں۔ متحمل مزاج اور ظریفانہ طبیعیت کے مالک ہیں۔ دوستانہ رویہ، جنون کی حد تک مطالعہ کے شوقین اور شعر و سخن کا اعلا ذوق رکھتے ہیں۔ منجھے ہوئے قلم کار ہونے کے علاوہ ایک بہترین مقرر بھی ہیں۔ اگر چہ شکل و شبہات سے ذہین نہیں لگتے لیکن قد کاٹھ سے ہوشیار ضرور معلوم ہوتے ہیں۔
ساجد ابو تلتاند اگر بال منڈوائیں اور داڑھی رکھ لیں، تو موصوف کے جڑواں بھائی لگیں گے۔ اگر خود وہ داڑھی منڈوائیں، تو چہرے کی جھریاں نمایاں نظر آئیں گی۔ مگر یہ عمر رسیدہ ہونے کی نہیں بلکہ جوانی میں کیل مہاسوں کی نشانیاں ہیں۔ تاہم ناک اور ہونٹوں کے گرد کا حلقہ ابھی سلامت ہے۔ شخصیت میں بلا کا اعتماد پایا جاتا ہے۔ کالج میں ہمہ وقت طلبہ و طالبات کے مسائل کے حل کےلیے کوشاں رہتے ہیں۔ بے تکلف اور بلا جھجک ہر کسی کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ بہت ہی پر خلوص اور ملن سار شخصیت کے حامل ہیں۔ پنج وقتہ نماز کے پابند ہیں۔ علم پر گرفت، اعلا کردار، روشن دماغ اور انتظامی امور کے ماہر ہیں۔ یعنی شاید ہی کوئی ایسی خوبی ہو جو ان میں نہ پائی جاتی ہو۔ ان تمام خوبیوں کے پیکر ہم سب کے ہر دل عزیز، ذہین، محنتی اور نابغہ روزگار ہستی اور کوئی نہیں بلکہ ہمارے پروفیسر رشید احمد صاحب ہیں، جن کے فیض سے افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ کے تشنگان علم اپنی پیاس بجھایا کرتے ہیں۔
آپ نے 1975ء کو تحصیل مٹہ کے گاؤں دارمئی میں بہادر شیر خان کے گھر جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی جب کہ 1992ء کو میٹرک امتحان گورنمنٹ ہائی سکول راحت کوٹ سے پاس کیا۔ 1994ء کو گورنمنٹ افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ سے ایف اے کا امتحان پاس کرتے ہوئے سوات تعلیمی بورڈ سے پہلی پوزیشن لے اڑے۔ 1997ء کو یہاں سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اسی زمانے میں آپ ایک نجی سکول کے پرنسپل بھی رہے۔ محنتی ہونے کی وجہ سے ہر کام خود نمٹانے کے موڈ میں رہتے۔ حتی الوسع کسی سے مدد لینے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس لیے جو کام آپ خود نمٹاتے، وہ خوب نتائج دیتے۔ جو کام انہیں نہیں کرنے چاہیے تھے، وہ مکمل طور پر خراب نہ سہی، تو خراب ضرور ہوجاتے۔ یہی خود اعتمادی تھی جس کی انتہا کا یہی نتیجہ نکلنا تھا، لیکن جب انتظامی امور سے ایک استاد کے روپ دھار لیتے تو کوئی ایسا مضمون نہیں جو آپ کو پڑھنا نہ آتا ہو۔ ایک دن سکول میں سائنس کا ٹیچر غیر حاضر تھا۔ لڑکے کلاس لینے کےلیے اصرار کررہے تھے۔ اس دوران موصوف فوراً اُٹھ کر فزکس کی کلاس لینی شروع کی۔ لڑکے بالے انگشت بدنداں ہوکر کہہ اٹھے، “سر جی! آپ تو پاکستان سٹڈیز پڑھ چکے ہیں، فزکس کا آپ سے کیا علاقہ۔۔۔؟” جواب دیا، آپ کو آم کھانے سے مقصد ہے یا پیڑ گننے سے!
 موصوف جب ادارے سے نکل کر اعلا تعلیم کےلیے پشاور چلے گئے، تو وہ ادارہ آپ کی جدائی برداشت نہ کرتے ہوئے خود بخود ختم ہوگیا۔ 2000ء کو پاکستان سٹڈیز ریسرچ سنٹر پشاور چلے گئے، جہاں سے مذکورہ شعبہ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 2003ء کو ڈگری کالج پورن شانگلہ میں لیکچرار کے طور پر تعینات ہوئے۔ جب کہ نومبر 2010ء کو گورنمنٹ افضل خان لالا کالج مٹہ ٹرانسفر ہوئے۔ 2005ء کو قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کی ڈگری حاصل کرتے ہوئے ایک بار پھر پہلے پوزیشن ہولڈر بنے اور آج کل اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور سے پی ایچ ڈی میں مصروف ہیں۔
پروفیسر صاحب نے بلا کی ذہانت اور حافظہ پایا ہے۔ اگر قرآن کی تفسیر ہو یا احادیث کی تشریح، اسلامی معلومات ہو یا تعلیمات، پاکستانی زبانیں و ادب ہو یا انگریزی زباں و ادب، ملکی حالات ہوں یا بین الاقوامی، سیاست ہو، تاریخ ہو یا جغرافیہ، سائنس ہو یا سوشل سائنس، ہر میدان میں علم کا ایک چشمہ ہیں، جو رواں دواں ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ علوم پر خوب دست رس رکھتے ہیں۔ کیوں نہیں، ضرور رکھتے ہوں گے۔ کیوں کہ ایک بار پی ایم ایس اور ایک بار سی ایس ایس کوالیفائی کرچکے ہیں۔ پی ایم ایس کا تو انٹرویو بھی پاس کیا اور سی ایس ایس میں بوجوہ انٹرویو نہ دے سکے۔ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں ایلوکیشن بھی ہوچکا تھا لیکن جوائن نہ کرسکے۔ ان کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ کئی اہم عہدوں سے محروم رہے لیکن ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ آپ سے زندگی میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
راقم الحروف (اخترحسین ابدالی ) کالج کے سینکڑوں طلبہ کے سامنے آج اگر کھڑے ہوکر بہترین کمپیرئر کا اعزاز اپنے نام کرتا ہے، تو اس کا کریڈٹ بھی پروفیسر صاحب کو جاتا ہے۔ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بیورو کریسی کو چھوڑ کر معلم بننا ان کےلیے کوئی نا آشنا کام نہ تھا۔ کیوں کہ آپ کے دادا “دارمئی ملک” نے بھی یہی کیا تھا۔ جب اسے باچا صاحب کی ایما پر خان بہادر بنایا جارہا تھا، تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی قوم کا خون نہیں چوس سکتا۔
پروفیسر رشید احمد ایک ایسی شخصیت ہیں جن پر لکھنا کسی اعزاز سے کم نہیں۔ وہ نہ صرف ایک اچھے استاد ہیں بلکہ ایک اچھے شاعر، ادیب، محقق اور عظیم انسان بھی ہیں۔ سادگی ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ یوں تو ہمارے بہت سارے اساتذہ ہیں جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں عظیم کارنامے انجام دیے ہیں، لیکن موصوف کا نام اور شخصیت سب سے منفرد ہے۔ یہ انفرادیت محض ان کی علمی لیاقت یا صلاحیت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان کے اخلاق حسنہ اور ایک نیک انسان ہونے کی وجہ سے ہے۔
پروفیسر صاحب نے جہاں زندگی میں مقبولیت اور کامیابی کی نئی تاریخ رقم کی ہے، وہیں اپنی نیکی، سادگی اور شرافت سے لوگوں کے دل بھی جیتے ہیں۔
قارئین! کار چلانے کی رفتار اگر روڈ رولر کے دو چند، سہ چند یا اس سے بھی زیادہ ہو پر تانگے سے اور ٹیک کے قابل نہیں۔ زیادہ سے زیادہ پچاس تک سپیڈ کی سوئی پہنچائی جا سکتی ہے، جس سے آگے خطرے کی گھنٹی بجتی ہے۔ ان کی گاڑی کی رفتار دیکھ کر مجھے خیرالحکیم وکیل حکیم زئی کی گاڑی یاد آتی ہے۔ پس جنہیں جلدی ہو، وہ ان دونوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کی غلطی نہ کریں۔ موصوف گاڑی پارک کرنے، ہر زاویہ سے جائزہ لینے اور خوب اطمینان کے بعد گاڑی سے لیپ ٹاپ کی بیگ اٹھا کر ایسا دبوچ لیتے ہیں جیسے انہیں چور اچکوں کا ڈر ہو۔ کوئی بندہ احتراما کوئی چیز آپ کے ساتھ لے جانا چاہے تو صاحب منع فرماتے ہیں۔ دفتر پہنچے، سامان رکھا، آفس میں موجود تمام لوگوں سے علیک سلیک کیا اور جیسے ہی کرسی پر بیٹھے، تو ان کا یہ انداز دیدنی ہوتا ہے۔ دراز ہو کر لیٹنے کے انداز میں سر پیچھے لے جاتے ہیں۔ انگڑائیاں لیتے ہوئے سینہ باہر نکالتے ہیں۔ دایاں پیر خود بخود بائیں پر چڑھ جاتا ہے۔ گویا اپنی ہی کرسی فتح کی ہو، لیکن حقیقت میں وہ کار چلانے کی تھکاوٹ دور کررہے ہوتے ہیں۔ کیوں کے اس کے بعد ان کا رخ اس میز کی طرف ہوجاتا ہے جس پر فائلوں کا انبار پڑا رہتا ہے۔ لیپ ٹاپ کھولتے ہیں۔ جب بھی کوئی ریکارڈ ڈھونڈنا پڑے، تو کاغذوں کے پلندے الٹتے پلٹتے ہیں۔
کلاس میں جاتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے پینٹنگ کرنے جا رہے ہوں۔ ہر رنگ کے مارکر اور بال پوائنٹ بکس میں کمربند کی طرح باندھ کر ایک جان باز سپاہی کی طرح کلاس میں داخل ہوتے ہیں۔
لباس سادہ ہو، مگر واسکٹ یا اور کوٹ پہننا ہرگز نہیں بھولتے جن کے بٹن لیکچر کے دوران ہر وقت بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں کی زد میں آتے ہیں۔ حیران ہوں کہ یہ کیسے بٹن ہے جو کھلتے ہیں اور نہ انہیں کاج میں کس کر رکھتے ہیں۔ وقت بے وقت “او کے” تکیہ کلام کا سہارا لے کر لیکچر کو جاری رکھتے ہیں۔ اگر یہ دو کام روک دیے جائیں، تو لیکچر خود بخود سٹاپ ہوجائے گا۔
آپ سے بحیثیت شاگرد ہمارا واسطہ اس وقت پڑا جب 2018ء کو ہم نے گورنمنٹ افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ کے شعبہ پاکستان سٹڈیز میں داخلہ لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پروفیسر شہاب الدین صاحب بطور پرنسپل ڈگری کالج خوازہ خیلہ تعینات ہوئے، تو موصوف شعبہ پاکستان سٹڈیز کے چیئرمین تھے۔  اس وقت کلاسز کے ساتھ ڈیپارٹمنٹ چلانا خاصا مشکل تھا، مگر پروفیسر صاحب نے پروفیسر انور شاہ کے ساتھ مل کر نہ صرف یہ چیلنج قبول کیا بلکہ خود کو غیر معمولی طور پر اس کا اہل بھی ثابت کیا۔ جب ڈیپارٹمنٹ کے انتظامی امور سنبھالے تو اگلی ہی سال یعنی 2019ء کو شعبہ کی میرٹ کالج کی سائنسی شعبہ جات کے مقابل آتے ہوئے 850 کے اوپر چھلانگ لگانے میں کامیاب ہوئے۔
آپ اچھی اور دل موہ لینے والی گفتگو کرتے ہیں۔ ان میں اچھی خاصی انگریزی لکھنے اور بولنے کی بھی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ کسی بھی مشکل موضوع پر کمال کی رفتار سے نوٹس تیار کرکے طلبہ کو دے دیتے ہیں۔ آپ “باسزم” پر یقین نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی ماتحتوں کے ساتھ بھی بڑے ادب اور احترام سے پیش آتے ہیں۔ اتنے عرصے میں ہمیں یاد نہیں کہ ان کے رویے کے حوالے سے کبھی کوئی ایسا ناخوش گوار واقعہ پیش آیا ہو جس سے برتر ہونے کا تصور ابھرتا ہو۔ کالج کی کلاس فور برادری سے ان کا رویہ اور سلوک لائق تحسین ہے۔
آپ کا طریقہ درس و تدریس نہایت سہل اور معیاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ آپ کے لیکچر میں ذوق و شوق سے شریک ہوکر خود کو علم کے سمندر کے قریب پاتے ہیں اور خوب سیراب بھی ہوتے ہیں۔
آپ ایک بہترین محقق اور استاد ہونے کے علاوہ بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں۔ یورپ اور جنوبی ایشیاء کے علاوہ عالم عرب کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ قائد اعظم جیسی معیاری یونیورسٹی (اسلام آباد) کی لائبریری میں آپ کے مقالات جات اور مضامین بطور مثال رکھے گئے ہیں۔
قارئین! کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ وہ روحانی ہستی ہیں جو دھات کو کندن، پتھر کو ہیرا، بنجر زمین کو زرخیز اور صحرا کو گلستاں بنانے کے حامل ہیں۔ اگرچہ مجھ جیسا بندہ نا چیز کے ہاں ان کی تعریف کےلیے الفاظ کا چناؤ ناممکن اگر نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ میں اللہ تعالا کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ کو اپنی زندگی میں استاد کی حیثیت سے پایا۔ آپ کی علمی و تدریسی خدمات قابل رشک اور ہم جیسے شاگردوں کےلیے قابل تقلید ہے۔ ان کے ساتھ آج بھی احترام اور محبت کا رشتہ قائم ہے، اور اللہ کرے کہ یہ رشتہ آخری سانس تک اسی طرح جاری و ساری رہے۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا انہیں اچھی صحت اور لمبی زندگی عطا فرمائے تاکہ طلبہ و طالبات کی آبیاری اسی طرح جاری رکھ سکیں، آمین۔
اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا (جس میں تھوڑی سی تبدیلی کی ہے)
اک روشن دماغ ہے، اور رہے
شہر میں ایک چراغ ہے، اور رہے
_________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: