پختون خوا کے ایک طاقت ور بزرگ اور حکم ران ملک احمد خان یوسف زئی کو ماہرینِ تاریخ ایک اہم شخصیت مانتے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے پختونوں کےلیے ایک الگ ملک اور حیثیت حاصل کرنے کی خاطر بے پناہ کوششیں کیں۔
موصوف کے اختیار کے وقت الگ الگ قوموں میں زمین کی تقسیم (ویش) بہت اچھے طریقے سے ہونے کے ساتھ ساتھ خونی جنگوں کا راستہ بھی روکا گیا تھا۔ موصوف کی صحیح تاریخ پیدائش تو معلوم نہیں لیکن محققین کہتے ہیں کہ انہوں نے اندازتاً 1470ء کو افغانستان کے صوبے قندھار میں آنکھیں کھولی تھی۔
دنیا کے کم عمر قومی سربراہ جرنیل ملک احمد خان، یوسف زئی قبیلہ کے سربراہ ملک شیر زمان شاہ کے بھتیجے تھے۔ اللہ بخش یوسفی کہتے ہیں کہ ملک احمد خان 1530ء کے آس پاس وفات پاگئے ہیں لیکن فہیم سرحدی جنہوں نے بڑی تعداد میں کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور اپنی بصیرت سے بھی کام لیا ہے، اپنے غیر مطبوعہ کتاب “روسیوں کے سفیر” میں لکھتے ہیں کہ ملک احمد خان 1447ء کو پیدا ہوئے تھے اور 1515ء میں ان کی حکم رانی میں یوسف زئی قبیلہ سوات میں آباد ہوگیا تھا۔
قارئین، 1498ء کو یوسف زئی اور “گگیانی” نامی قبیلہ کے درمیان ایک خاتون کی وجہ سے تنازعہ کھڑا ہوا جس میں مرزا الغ بیگ نے گگیانیوں کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں یوسف زئی قبیلہ کے سات سو افراد شہید اور ملک احمد خان قید ہوئے۔ اس کے بعد ملک احمد خان کے چچا ملک سلیمان نے الغ بیگ سے ان کو رہا کرنے کی درخواست کی۔ بدلے میں ملک سلیمان نے اپنے آپ کو ان کے حوالہ کردیا جن کو بعد میں شہید کر دیا گیا۔
خیبر پختون خوا کے عبدالولی خان یونی ورسٹی کے استاد اور تاریخ کے لکھاری فرہاد علی خاور لکھتے ہیں کہ ملک احمد خان مغلوں کے الغ بیگ کی حکم رانی کے وقت اولاً قندھار اور ثانیاً کابل سے ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔ فرہاد علی خاور کے بقول جب مغلوں نے ایک سازش کے پیشِ نظر یوسف زئی قبیلہ کے بعض افراد کو کابل میں قتل کر ڈالا اور دیگر بعض کو اپنے علاقوں سے نکال دیا، تو پختون قوم ملک احمد کی سربراہی میں آج کے دور کے خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئی۔
خاور اس حوالے سے کہتے ہیں کہ “اُس وقت ملک احمد خان جلال آباد میں تھے۔ وہ جلال آباد سے سوات کی طرف اس عزم کے ساتھ روانہ ہوئے کہ پختونوں کے لیے ایک الگ ملک کی بنیاد رکھیں گے۔ جب وہ یہاں آئے، تو قبیلہ “دلہ زاک” نے انہیں دوآبہ کے مقام پر رہنے کے لیے جگہ دی۔ ملک احمد خان نے یہاں وقتاً فوقتاً اپنا قبیلہ متحد کرنے کا عمل شروع کیا۔ اس کے ساتھ ہشت نگر کا علاقہ تھا جو سواتی سلطان اویس کا جاگیر تھا۔ وہ مغل حکم رانوں کو ٹیکس دیا کرتا تھا۔ ملک احمد خان نے ہشت نگر پر حملہ کیا۔ 1510ء کو ملاکنڈ تک کے علاقے فتح کر لیے اور سوات کی طرف روانہ ہوئے۔ اس کے بعد 1515ء کو ملاکنڈ کے علاقہ تھانہ میں یوسف زئی قبیلہ اور سواتیوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس میں سلطان اویس سواتی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یوسف زئی قبیلہ نے سوات بھی قبضہ کرلیا۔”
قارئین، ملک احمد خان اپنی دور اندیشی کی وجہ سے مشہور تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنے لوگوں کو مختلف جگہوں میں تعینات کیا۔ لکھاری اور محقق نورالامین یوسف زئی اس حوالہ سے کہتے ہیں کہ: ملک احمد خان کے بارے میں اُس زمانے کے تمام تذکرہ کرنے والوں چاہے وہ اپنے ہوں یا غیر، لکھا ہے کہ اس کی پیشانی پر سربراہی کے آثار نمایاں تھے۔ اس کے ساتھ وہ فصیح و بلیغ مقرر تھے۔ قابل انسان تھے اور آپ وہ پختون ہستی تھے جنہوں نے تسبیح کے دانوں کی طرح پختونوں کے منتشر قبیلوں کو ایک لڑی میں پرویا۔ انہیں ایک مٹھی کی شکل دی اور پھر بسنے کی خاطر ان کےلیے ایسی زرخیز مٹی تلاشی کہ اب پانچ سو سال گزرنے کے بعد بھی وہاں مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں اور اپنی ثقافت اور روایات کے امین ہیں۔” مَیں تو یہ کہتا ہوں کہ اکثر و بیشتر پختون قبائل نے تہذیبی اور تمدنی زندگی کی طرف بحیثیتِ قوم ملک احمد خان کے دور سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ایسا تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ سب کچھ انہوں نے اپنے دور میں مکمل کیا ہے لیکن یہ کَہ سکتے ہیں کہ ابتدا انہوں نے ہی کی تھی۔ تاریخ کے صفحات میں ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ جب گگیانڑی اور محمد زئی قبیلے کو الغ بیگ نے تنگ کیا اور وہ یہاں آئے، تو ملک احمد خان نے اپنے یوسف زئی قبیلہ سے کہا کہ آپ مردان اور صوابی کی طرف ہجرت کر جائیں یعنی اباسین کے کنارے کی طرف جائیں اور آباد زمینیں محمد زئی اور گگیانڑوں کےلیے چھوڑ دیں۔
ملک احمد خان نے نہ صرف پختونوں کے منتشر قبیلوں کو یکجا کیا بلکہ ان کی ایک الگ شناخت کےلیے بھی کام کیا۔ تاریخ لکھنے والے فرہاد علی خاور کہتے ہیں کہ سب سے بڑا کام جو ملک احمد خان یوسف زئی نے کیا ہے، وہ “پختون خوا ریاست” کا اعلان کرنا تھا: “1520ء کو ملک احمد خان نے پختون خوا ریاست کا اعلان کردیا۔ ملک احمد خان اس کے رہبر تھے جب کہ شیخ ملی بابا وزیرِ اعظم اور قاضی القضات تھے۔ پختون خوا کی اُس وقت کی ریاست میں صوابی، مردان، ہشت نگر، ملاکنڈ، سوات، بونیر اور باجوڑ کے علاقے شامل تھے۔ اُس وقت ملک احمد خان نے ایک بڑی تدبیر سے کام لیا اور وہ یہ کہ ریاست کو یوسف زئی نام نہیں دیا، بلکہ اسے پختون خوا نام دیا۔ افغانستان میں جتنے قبیلے تھے وہاں سے تھوڑے تھوڑے لوگوں کو بلواتے، انہیں یہاں مختلف علاقوں میں جگہیں دیتے۔ جہاں یوسف زئی قبیلہ کے پانچ ہزار افراد بستے، تو افغانستان سے جن پختونوں کو بلواتے، دو دو سو افراد ان کے ساتھ جمع کرتے۔ اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ پختون خوا کا انحصار افغانستان پر ہو۔”
پانچ سو سال پہلے ہر قبیلہ اس کوشش میں تھا کہ ایک پورے علاقہ پر قبضہ کرلیا جائے جس میں زرعی اراضی کے ساتھ رہائشی زمین بھی ہو۔ ملک احمد خان یوسف زئی کے دور میں بھی پختون خوا میں زمینوں پر جھگڑے جاری تھے لیکن اُن کے ساتھی، مشیر اور وزیر شیخ ملی بابا نے موصوف کے ساتھ تمام مسائل کے حل کے سلسلے میں مکمل تعاون کرتے تھے۔
اس حوالے سے نورالامین یوسف زئی کہتے ہیں: “ملک احمد خان خود بھی بہت زیرک اور ہوشیار آدمی تھے لیکن جو کام ان کی ریاست میں شیخ ملی نے کیا ہے وہ اس کے حوالے سے کم جانتے تھے اور وہ کام تھا زمینوں کی تقسیم یعنی ویش۔ قبیلوں کے نام بھی شیخ ملی بابا نے رکھے ہیں۔ ملک احمد بھی زمینوں کی تقسیم کے حوالہ سے شد بد رکھتے تھے مگر شیخ ملی جتنی پرکھ ان کی نہیں تھی۔ یہ جو اَب ہمارے ساتھ پٹوار سسٹم ہے مغلوں کے بعد فرنگیوں نے بھی اسے جاری رکھا۔ اس لیے یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ شیخ ملی کافی ہوشیار آدمی تھے۔ خدا نے انہیں عمرِ دراز عطا کی تھی۔ وہ گجو خان دور تک مشورے دیا کرتے تھے۔ ظاہری بات ہے کہ مشیر ہونے کی اپنی ایک اہمیت اور حیثیت ہوتی ہے۔ مَیں بہ ذاتِ خود پختونوں کی تاریخ میں شیخ ملی کے مصالحت آمیز کردار کا بڑی حد تک قائل ہوں۔”
ملک احمد خان نے ایک اور کمال یہ کیا ہے کہ اپنے بیٹے یا قریبی رشتہ دار کے بجائے مندنڑ ملک گجو خان کو سرداری کے لیے چن لیا۔ انہوں نے شیخ ملی کے ساتھ اس حوالہ سے مشورہ کیا کہ یہ شخص (گجو خان) بہادر بھی ہے اور ہوشیار بھی۔ جب گجو خان سے اس حوالہ سے بات کی گئی، تو انہوں نے کہا کہ آپ کے جیتے جی میں زمامِ اقتدار نہیں سنبھال سکتا۔ لیکن جب ملک احمد خان انتقال کرگئے، تو پھر جرگہ بلوایا گیا اور جمہوری طریقہ سے گجو خان پختونوں کے سردار بن گئے۔
نورالامین یوسف زئی آگے کہتے ہیں کہ ملک احمد خان اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ بادشاہوں کی طرح اختیار ایک ہی خاندان کے پاس رہے۔ موصوف کے مطابق اس سے پہلے کہ ملک احمد خان دارِ فانی سے کوچ کرجاتے، گجو خان کو قوم کی رہبری کے لیے خود چن لیا۔ گجو خان پختونوں کی تاریخ میں ایک روشن دماغ، تعلیم یافتہ اور اچھے حکم ران گزرے ہیں۔ ملک احمد خان کی شخصیت کے کئی رُخ ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ملک گجو خان کی سرداری میں پختون خوا ریاست اور بھی پھیل گئی۔”
مؤرخین کی قیاس آرائی کے پیشِ نظر ملک احمد خان یوسف زیٔ 1530ء کو وفات پاگئے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر مشال ریڈیو کی شائع کردہ کتاب “اتلان” (پختو) کے مضمون “ملک احمد خان یوسف زئی” کا اُردو ترجمہ ہے جس میں جہانزیب کالج کے پشتو کے پروفیسر عطاء الرحمان عطاءؔ نے مترجم کی معاونت کی ہے۔
___________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔