تہذیب عربی زبان سے مشتق اسم ہے جو ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفصیل سے مصدر ہے اور اُردو میں بطورِ حاصل مصدر مستعمل ہے۔ لفظ تہذیب اُردو میں عربی زبان سے ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔
معنوی اعتبار سے تہذیب کے مختلف پہلوؤں کی بنیاد پر اس کے مختلف معنی اخذ کیے جاتے ہیں۔ کیوں کہ تہذیب دراصل ایک وسیع مفہوم والی اصطلاح ہے۔ اسی لیے اس کا خاص الفاظ میں تعریف بیان کرنا مفکرین کےلیے انتہائی مشکل کام رہا ہے، لیکن تہذیب کے پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سرسری انداز میں تہذیب کو ہم یوں بیان کرسکتے ہیں کہ “کسی بھی معاشرے کی بامقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو یا انسانی زندگی کے گذر بسر کرنے کی طریقۂ کار کو تہذیب کہتے ہیں۔”
یا بہ الفاظِ دیگر “انسان کے تمام افعالِ ارادی، اخلاق، معاملات، معاشرت، طریقۂ تمدن، علوم اور ہر قسم کے فنون و ہنر کو اعلا درجے کی عمدگی پر پہنچانا، ان کو نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے برتنا جس سے اصل خوشی اور جسمانی خوبی ہوتی ہے، تمکین و وقار اور قدر و منزلت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز نظر آتی ہے، تہذیب کہلاتا ہے۔”
مختصراً یہ کہ “عقل اور قانون کا وہ اظہار جس میں بہ ظاہر آنے والے وہ تمام اشیا جو کسی بھی معاشرے کےلیے افادیت اور سہولیت کے حامل ہو، تہذیب کہلاتا ہے۔”
قارئین! تہذیب کسی بھی معاشرے کی طرزِ زندگی اور طرزِ فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے۔ کیوں کہ زبان، آلات اور اوزار، پیداوار کے طریقے، سماجی رشتے، رہن سہن، فنونِ لطیفہ، علم و ادب، فلسفہ و حکمت، عقائد، اخلاق و عادات، رسوم و روایات، عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں۔
تہذیب کا تعلق حقیقتاً انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔ اسی طرح یہ ہماری زندگی کی ناقابلِ تقسیم اکائی ہے۔ زندگی گذارتے ہوئے ہم اپنی روایات کے ساتھ جیتے ہیں۔ اسی طرح دائمی طور پر رونما ہونے والی نت نئی تبدیلیوں کو قبول کرتے ہیں۔ اس دوران دوسری تہذیبوں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے اور ہماری زندگی پر ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری اپنی زندگی کی اپنی تہذیب میں بھی کچھ تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق انسان صبح جاگنے سے لے کر شام تک ہونے والی سرگرمیاں جو وہ انجام دیتا ہے ان تمام اعمال سے اس کی تہذیب آشکار ہوتی ہے۔ تہذیب موروثی نہیں ہوتی بلکہ فرد سماج کے رُکن کی حیثیت سے جو جو انفرادی رویہ اختیار کرتا اور سیکھتا ہے وہ اس کی تہذیبی اُمور کو پیش کرتے ہیں۔ اس میں اندازِ گفتگو، رہن سہن، مذہبی اُمور، لسانی اُمور وغیرہ کے علاوہ دیگر کئی اہم اجزا شامل ہیں۔
تہذیب ہمیشہ مخصوص ہوا کرتی ہے یعنی جس طرح سماج تبدیل ہوتا ہے اسی طرح تہذیب بھی لبادہ اوڑھتی ہے۔ ایک مخصوص سماج کی ایک اپنی مخصوص تہذیب ہوا کرتی ہے جو اس کو اپنی انفرادیت عطا کرتی ہے اور یہ وہاں کی پہچان بھی ہوتی ہے۔

شیئرکریں: